سانئحہ پشاور کے نام
قلم بھی خون کے آنسو رو پڑا
پھولوں کو شہید لکھتے لکھتے
آنکھوں سے آنسو بھی سوکھ گئے
پھولوں کو شہید لکھتے لکھتے
ہر آنکھ اشک بار ہے،ہر دل رنجیدہ ہے۔اور ہو گا بھی کیوں نہیں،آخر اس قدر اندوہناک حادثہ اس کرہٗ ارض نے دیکھا۔جو پتھرسے پتھر دل شخص کو رلانے پر مجبور کر دے۔صرف ان کو نہیں ہو گا جنہوں نے یہ ظالمانہ کام کیا ہے۔ان کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔ایسے درندہ صفت لوگوں سے تو درندے بھی شرما گئے ہوں گے۔اور ایسا بھیانک کام کر کے خود کو مسلمان بھی سمجھتے ہیں۔ایسے لوگوں کو زمین کھود کر اس میں خود گڑھ جانا چاہیئے۔
ظالموں کو ذرا بھی خیال نہ آیا
پھولوں کو شہید کرتے کرتے
یقیناًاس وقت جب ظالموں نے اپنا منصوبہ بنایا ہو گا تو زمین نے اپنے کاخالق سے فریاد کی ہوگی کہ اے رب کریم !مجھے اجازت دے تو میں پھٹ جاؤں اور ان انسان نما درندوں کو نگل جاؤں،یقیناًآسمان نے بھی اجازت طلب کی ہو گی کہ اے رحمان !مجھے حکم دے تو میں ان ظالموں پر ٹوٹ کے برسوں....لیکن وہ خدا جو ہر لمحے کی خبر رکھتا ہے،اس نے اجازت نہیں دی ہو گی۔۔کیونکہ کہ وہ جانتاتھا کہ اس قربانی کے بعد کیا ہو گا؟
ان معصوم شہیدوں کی قربانیا ں ضرور رنگ لائیں گیں۔کیونکہ خدا کسی کی قربانی ضائع نہیں کرتا۔ایک نہ ایک دن ہمیں اس کا پھل ضرور ملے گا۔
Comments
Post a Comment