Skip to main content

ہم بڑے فخر سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ آج ہمارا’’برتھ ڈے‘‘ ہے۔اور خوشی ے جھومتے جھامتے اس دن کو ’’مناتے ‘‘ہیں۔اور جو اس دن کو منانے سے منع کرتے ہیں یا نہیں مناتے ہمارے اس روشن خیال معاشرے میں اسے دقیانوسی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔کبھی کبھی میں اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ شاید واقعی یہ اسلام کا حصہ ہے؟کہ مسلمان اس دن کو کافی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔لیکن پھر جب اسلاف کی تاریخ اٹھا کہ دیکھتا ہوں تو وہاں اس نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔شاید پچھلے زمانے کے لوگوں کو اس کی ’’اہمیت‘‘ کا اندازہ نہ تھا یا یہ شروع ہی سے اسلام میں نہ تھی؟۔
تو پھر بات صاف ظاہر ہے کہ اگر اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہوتی تو اسلام ہمیں اس کو منانے کا ضرور حکم دیتا۔عجیب بات ہے کہ انسان کی زندگی کا ایک سال ختم ہوجاتا ہے اور وہ اس پر خوشی مناتا ہے کہ لو جی ہماری زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے۔اور اپنے رشتے داروں،دوستوں اور دوسرے لوگوں میں اس بات کا چرچا کرتا ہے کہ جی کل ہمارے گھر آئیے گا ہمارا’’برتھ ڈے ‘‘ہے۔مجھے تو اس کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا۔ہاں البتہ کوئی یہ بات کہہ دے کہ اس دن انسان رشتے داروں سے مل لیتا ہے تو رشتہ اور زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے،ایک دوسرے سے مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ہاں یقیناًایسا ہی ہوتا ہو گا!۔۔لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام بنانے والے یعنی اللہ کو اس بات کا پتہ نہ تھا؟(نعوذ باللہ)۔ضرور پتہ تھا لیکن اس نے اور بھی توملنے کے مواقع رکھے ہیں ۔جیسا کہ عیدین،شادی یافوتگی وغیرہ۔ہاں تو بات چل رہی تھی اس کے نفع نقصان کی۔اس کا ایک نقصان تو وقت کا ضیاع ہے،اور اس سے بڑھ کر اخروی نقصان۔آج دنیا ایک گلوبل ولیج ہے ۔کسی سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے۔یہ بات تو تقریباً ہر صاحبِ عقل اور ذی شعورشخص جانتا ہے کہ ’’برتھ ڈے‘‘ منانا کم از کم مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے۔بلکہ یہ کام صرف غیر مسلموں کا ہے،یہ کام یہود ہ ہنود کا ہے۔اور وہ یہ کام کرتے ہیں۔اس حوالے سے ایک حدیث مشہور ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو قوم جس کی مشابہت اختیار کرے گی وہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ کھڑی ہو گی۔اب یہ ہمارا انتخاب ہے کہ ہم کس قوم کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کریں گے،مسلمان قو م کے ساتھ یا کسی اور کے ساتھ۔اگر ہمیں کوئی کہہ دے کہ مسلمان قوم کے علاوہ جس کے ساتھ کھڑنا ہونا کھڑے ہو جاؤ تو ہمارا جواب یقیناًنفی میں ہو گا۔لیکن ہم کام پھر بھی دوسروں والا کریں گے۔
بعض اوقات انسان شیطان کے دھوکے میں آجاتا ہے کہ کوئی بات نہیں یہ کام کر لو چار دن کی تو زندگی ہے اگر اس کو بھی بندہ انجوائے نہ کرے تو پھر کیا فا ئدہ؟۔عام طور پر یہ جملہ وہ لوگ بولتے ہیں جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی ،جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کے بعد کوئی دنیا نہیں ،جو یہ کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد کون ہمیں زندہ کرے گا؟۔یہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت۔کافر ایسی بات کہیں تو کہہ سکتے ہیں ۔لیکن یہ فقرے مسلمان قوم کو زیب نہیں دیتے۔کیونکہ مسلمانوں کے پاس ایک منزل ہے،ایک اصول ہے۔ایک طریقہ ہے۔
ہمارے ہاں ایک اور رواج جڑ پکڑتا جا رہا ہے اور وہ ہے مرحومین اور شہداء کی یاد میں شمعیں جلانا۔آپ آنکھیں بند کر کے یہ تصور کریں کہ شمعیں جلانے سے شہداء اور مرحومین کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟یقیناًآ پ کا جواب یہی ہو گا کہ کوئی فائدہ نہیں۔تو پھر ہم ایسا کام کیوں کرتے ہیں جس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نقصان ہوتا ہے۔کرنا کیا چاہئیے تھا ؟اصل کام کرنے کو تو یہ تھا کہ ہم ان کے لئے فاتحہ خوانی کرتے،قرآن خوانی کرتے ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے۔جس سے ہمیں بھی کچھ فائدہ ملتا اور ان کو بھی۔لیکن ہم کریں تو کیا کریں؟ہم بھی چکی کے دو پاٹوں میں اس دانے کی طرح ہیں جس نے ہر حال میں ریزہ ریزہ ہونا ہے۔ادھر غیر کو بھی خوش رکھنا ہے تو ادھر اپنے کو بھی۔ادھر اسلام کا قانون ہے تو ادھر کفر کا۔ہمیں ایک کو لازمی چھوڑنا پڑے گا کیوں کہ دو کشتیوں کا سوار ہمیشہ ڈوب جاتا ہے۔اور ہماری کشتی اسلام کی ہے۔
غالب نے کیا خوب کہا ہے کہ:۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسہ مرے آگے
ہم مسلمان قوم بھی عجیب روش پر چل نکلے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ حکم شیطان کا مانیں اور توقع رکھیں رحمان سے۔ہم لوگوں کی مثال یوں ہے کہاایک بندہ پیٹرل اور آگ کو ایک ساتھ میں رکھے اور کہے کہ جب پیٹرول کو آگ پر ڈالا جائے تو یہ برف بن جائے۔ایسے شخص پر ہنسیں گے نہیں تو کیا اور کیا کریں گے؟ہم بالکل اسی شخص کی طرح ہیں جو یہ کہے کہ میں گناہ بھی کروں اور سزا بھی نہ ملے۔یہ اللہ کا اصول نہیں ہے۔ہمیں آج سے ہی خود کو بدلنا ہو گا۔ہمیں وہ تمام رواج ختم کرنا ہو گے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔اگر ہم خود کو نہیں بدلیں گے تو وہ ذات بھی ہمیں نہیں بدلے گی جس کا کام ہے صرف یہ کہنا کہ ’’ہو جا‘‘۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

Comments

Popular posts from this blog

مزاحیہ تقریر

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز  اور ا ن کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز محٹرم سامعین بمعناظرین جناب صدر اینڈ آل بردرزالسلام علیکم! میری آج کی تقریر کا عنوان اس دن کے نام جس دن ،جس دن ،پتہ نہیں کیا ہوا تھا،میری آج کی تقریر اس دن کے نام جس دن،جس دن بہت کچھ ہو اتھا۔جنابِ صدر !میرے اس چھوٹے سے دل میں بڑی سی خواہشیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا انسان بننا چاہتا ہوں۔اتنا بڑا کہ میرا قد عالم چنا سے بھی بڑا دکھنے لگے۔میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے ملک کا نام روشن کر وں لیکن کمبخت واپڈا والے ایسا کرنے نہیں دیتے۔جب بھی پاکستان کا نام لکھ کر ۱۰۰ واٹ کے بلب پر لگاتا ہوں ،واپڈا والے بجلی ہی’’ چھک ‘‘لیتے ہیں ۔جنابِ صدر اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔آ پ خود اندازہ لگائیں کہ اگر آج واپڈا والے میری راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ،میری راہ میں روڑے نہ اٹکاتے،میری راہ میں کانٹے نہ بوتے اور سو واٹ کا بلب نہ بجھاتے تو میں عمران سیریز کاکم از کم ایک ناول ختم کر چکا ہوتا۔لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جنابِ صدر میں چاہتا ہوں کہ میں ایک سائنسدان بنوں اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کروں۔میرا سب ...
ہاسٹل میں گزرے یادگار دن۔ ہاسٹل رہنا تھا،اعلی تعلیم کی ڈگری کے لیے۔ چھے سال وہیں گزارنے تھے،علاوہ گرمیوں کی چھٹیوں کے۔زادہِ راہ ساتھ لیا اور رخت سفر باندھ لیا۔دنیا جہان کی ہر چیز ساتھ رکھ لی جیسے مریخ پر جا رہے۔ کنگھی، تیل،شیشہ،صابن،شیمپو کی بوتل،فیس واش،خوشبو،نیل کٹر،قینچی، "ٹوتھ برش" دانت مانجھنے واسطے،پالش اور برش جوتے چمکانے واسطے۔۔۔ احتیاطاً سوئی دھاگہ بھی ساتھ رکھ لیا،کیا معلوم بٹن ٹوٹے یا دھاگہ ادھڑ جائے،ایک ممکنات یہ بھی کر لی کہ کوئی چمڑی نہ ادھیڑ لے، بوقت ضرورت کام آئے، سو، سلائی کا سامان بھی موجود ہو۔ حالانکہ اچھے وقتوں میں سب کام کیے میں نے! پراٹھے بڑے اچھے بناتا تھا۔اماں اب بھی یاد کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے سکول سے واپس آکر اکیڈمی جاتے ہوئے اپنے لیے خود دودھ پتی بناتا اور ساتھ میں روغنی پراٹھے بنا کر خود کو پیش کرتا۔۔۔اماں کہتی ہیں میری بہو کو بڑی آسانی ہو گی۔۔۔ٹھیک کہتی ہیں۔۔برتن دھو لیتا ہوں۔۔۔استری کر لیتا ہوں۔۔کپڑے دھونے میں ید طولیٰ حاصل ہے۔۔! یہ اپنی مشہوری نہیں کررہا بس زرا شوخی کرنے کو دل کررہا،لیکن مجھے مہنگی پڑنے والی ہے،مستقبل قریب میں۔۔۔!! خیر الف سے لے...

یہ عبرت کی جا ہے

سکول میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا کھیل و کود نے کبھی ا ن بٹنوں سے دیکھا ہے تو نے جو بھگوڑے تھے لڑکے وہ اب ہیں نمونے جگہ بھاگنے کی سکول نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے آئے امتحان میں سوال کیسے کیسے  دماغ جواب دے گئے کیسے کیسے لڑکوں نے نقل لگائی کیسے کیسے خلاصے لے گئے ساتھ کیسے کیسے جگہ نقل لگا نے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تما شہ نہیں ہے امتحانوں نے شر یف چھوڑا نہ ہی آوارا  اِ سی سے مجھ سا پڑَھاکو بھی ہا را ہر اک لے کے کیا کیا حسرت سیدھارا  ہر مضمون میں نمبر لیا صفر یارا جگہ افسوس کرنے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے رزلٹ نے پھر آ کے کیا کیا ستا یا استاد تیرا کر دے گا بالکل صفایا میٹرک میں کسی نے توَ پیپر حل کر ایا ایف ایس سی نے پھر تجھ کو پاگل بنایا جگہ رزلٹ بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ہے عیش و عشرت کا کوئی مکاں بھی جہاں تاک میں کھڑا ہو امتحاں بھی بس اپنے اس خوف سے نکل بھی  یہ طرزِ نقل ا ب اپنا بدل بھی جگہ طریقہ نقل بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ...