صغیرہ شیطان المعروف پتنگے
برسات میں پتنگوں کی تو موجیں لگ جاتی ہیں۔جونہی مغرب کا وقت ہوتا ہے ان کی
آمد کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔راستے میں چلتے ہوئے
کبھی چہرے کے ساتھ ٹکراتے ہیں تو کبھی بالوں میں گھس کر اودھم مچادیتے ہیں۔پتنگوں
کی اس قدر بہتات ہوتی ہے کہ بندہ کسی سے بات بھی نہیں کرسکتا ۔اگر اِدھر بات کے
لیے منہ کھولا تو اُدھر ایک پتنگا سیدھا
منہ کےاندر،اور پھر تُھو تُھو کرنے والا ایک لا متناہی سلسلہ شروع۔اِدھر
تھوکنے کے لیے منہ نیچے کیا تو اُدھر
بالوں میں دوسرا پتنگا اَڑ گیا۔اس سے جان چھڑائی تو کسی تیسرے شیطان نے آستین سے انٹری ماری اور قمیض کے اندر مدغم۔سر سے پتنگا نکالا تو وہ
سیدھا کانوں میں گھو ں گھوں کرکے اپنا پر تڑوا کے پاؤں پر لوٹنے لگ جاتا ہے۔انسانوں
کی بینڈ بجانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں
رکھتے۔ بہرحال حفظِ ما تقدم کے تحت اول تو گھر سے نہ
نکلیں اگر نکلیں تو کسی خاتونِ خانہ کا
عبایہ یا برقعہ پہن لیجیے کہ اسی میں
بہتری ہے۔
ساون میں پتنگوں کی فوج ظفر موج روشنی کے آگے سجدہ ریز ہوتی نظر
آتی ہیں۔بڑی چیونٹیوں کے جب پر نکل آتے
ہیں تو وہ غل غپاڑہ مچاتی ہیں کہ الامان
الحفیظ۔ صبح کو بلب کے نیچے ان کی وردیاں اتری پڑی نظر آتی ہیں۔جسے مالِ غنیمت
کہنا قطعی طور پرمناسب نہیں۔انہی کی بدولت رات کو انہوں نے ناک میں دم کررکھا ہوتا
ہے،اس کے علاہ جہاں جہاں ان کی پہنچ ہوتی ہیں وہاں بھی دم کردیتے ہیں۔
اکثر ایسا
ہوتا ہے کہ کچھ ناہنجار اور شباب کے نشے میں دھت شرارتی
پتنگے قمیض میں گھس جاتے ہیں۔او ر جسد خاکی کو اپنا ذاتی
سٹیج سمجھ کر کسی اداکارہ کی طرح بنا پیسوں کے تھرکتے ہیں ۔ اور اس قدر گدگدی
کرتے ہیں کہ بندے کو مجبوراً تھوڑا سا
ڈانس کرنا پڑتا ہے تا کہ قمیض کے آخری
کونے سے انہیں باہر کا راستہ دکھایا جائے کہ
آنگن تو باہر ہے،یہاں ناچو۔بنیان
اور قمیض کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر انسان کو تگنی کا ناچ نچا دیتے ہیں۔صرف یہی نہیں
بلکہ صبح جب بستر سے اٹھا جاتا ہے تو پہلو میں یہ پتنگے بھی مردہ حالت میں پائے
جاتے ہیں۔جن کے لاشے بے گورو کفن
جھاڑو سے باہر منتقل کردیئے جاتے
ہیں۔
بعض دفعہ کھانے میں بھی شریک ہوجاتے ہیں۔اور ان کی بد تہذیبی ذرا ملاحظہ کیجیے
کہ ایک دو گھونٹ کے لیے پورے کے پورے ڈونگے میں اپنا آپ منتقل کردیتے ہیں۔گویا سالن سے بھرا ڈونگا ان کے
آباؤ اجداد کا سوئیمنگ پول ہے جو یوں بےنیازی سے اس میں غوطہ زنی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔شاید انہیں اپنے کسی مفکر
نے مشورہ دیا ہوگا کہ:
؎ اپنے ڈونگے میں ڈوب کر پاجا سراغِ
زندگی
انہیں سراغِ زندگی تو نہیں ملتا
ہوگا البتہ سراغِ موت ضرور مل جاتا ہے۔
Comments
Post a Comment