Skip to main content
                                                                                          لوڈ شیڈنگ
’’لوڈ شیڈنگ ‘‘کہنے کو تو دو حرف ہیں اور سہنے کو پوری عمر۔ان کو خوش قسمت کہیئے یا کچھ اور ،جو داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں ۔اور وہ جو ابھی سطح زمین سے اوپر جلوہ افروز ہیں ،انہیں ان کے نا کردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔یا مل چکی ہے۔ہر کوئی ایک ہی رونا رو رہا ہے،لیکن ہر ایک نہیں،کہ بجلی بند،پانی بند،گیس بند اور اوپر سے بارش بھی بند۔وافر مقدار میں جو دستیاب ہے اس وقت وہ ہے’’ پسینہ ،ابلتا پانی،ٹھنڈے چولہے اور آفتاب کی غم و غصے میں بھری سنہری کرنیں ‘‘،صرف یہی نہیں بلکہ مہنگائی کے جن نے بھی ان سے پیچھے رہنا گوارا نہیں کیا۔اور لوگوں پر اپنا جادو چلا رہا ہے۔لیکن ہمارا موضوع ’’لوڈ ‘‘ کاہے۔کسی حد تک مہنگائی کا تعلق ’’لوڈ‘‘ سے بن ہی جاتا ہے۔لیکن اگر ساتھ میں ’’شیڈنگ‘‘ مل جائے تو پھر اک مسئلہ باقی نہ رہے۔پھر یوں لکھا جائے گا کہ ’’مہنگائی شیڈنگ‘‘۔لیکن موجودہ زمانے میں یہ’’سستائی شیڈنگ ‘‘ہے۔اور سفید پوش اور ’’بلیک پوش‘‘ میں جو فرق تھا وہ اب صرف ایک افسانے کا روپ دھارنے کو ہے۔شاید کہیں کہیں اس نے روپ دھار بھی لیا ہے۔تو پھر صرف دو ہی طبقے رہ جاتے ہیں۔’’امیر طبقہ اور عجیب و غریب طبقہ۔‘‘واقعی ایسے غریب کو عجیب ہی کہیں گے جو ابھی تک زندہ ہے۔وجہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہی تو ہے۔اور رگ رگ کی ’’تسبیح ‘‘بن چکی ہے۔
’’پڑوسی ممالک‘‘پاکستان کو سونے کی چڑیا کہتے تھکتے نہیں۔اوراس چڑیا کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اور ہم دینا نہیں چاہتے ۔اس لئے ہم نے کیا کیا کہ اس چڑیا کے پر کاٹنے شروع کر دئیے ہیں۔تا کہ یہ ’’پروان‘‘ نہ چڑھ سکے۔جب یہ اڑ ہی نہ سکے گی تو دوسرے اسے کس طرح پکڑیں گے۔کیوں کہ چڑیا کے اڑنے کے لئے ’’پر‘‘ اہم چیز ہے۔اور جب یہ کاٹ لیے جائیں تو و ہ رینگنے والے کیڑے کی مانند ہی نظر آئے گی۔کہنے کو تو چند لفظ ہیں لیکن سمجھنے کے لئے ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

مزاحیہ تقریر

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز  اور ا ن کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز محٹرم سامعین بمعناظرین جناب صدر اینڈ آل بردرزالسلام علیکم! میری آج کی تقریر کا عنوان اس دن کے نام جس دن ،جس دن ،پتہ نہیں کیا ہوا تھا،میری آج کی تقریر اس دن کے نام جس دن،جس دن بہت کچھ ہو اتھا۔جنابِ صدر !میرے اس چھوٹے سے دل میں بڑی سی خواہشیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا انسان بننا چاہتا ہوں۔اتنا بڑا کہ میرا قد عالم چنا سے بھی بڑا دکھنے لگے۔میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے ملک کا نام روشن کر وں لیکن کمبخت واپڈا والے ایسا کرنے نہیں دیتے۔جب بھی پاکستان کا نام لکھ کر ۱۰۰ واٹ کے بلب پر لگاتا ہوں ،واپڈا والے بجلی ہی’’ چھک ‘‘لیتے ہیں ۔جنابِ صدر اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔آ پ خود اندازہ لگائیں کہ اگر آج واپڈا والے میری راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ،میری راہ میں روڑے نہ اٹکاتے،میری راہ میں کانٹے نہ بوتے اور سو واٹ کا بلب نہ بجھاتے تو میں عمران سیریز کاکم از کم ایک ناول ختم کر چکا ہوتا۔لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جنابِ صدر میں چاہتا ہوں کہ میں ایک سائنسدان بنوں اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کروں۔میرا سب ...
ہاسٹل میں گزرے یادگار دن۔ ہاسٹل رہنا تھا،اعلی تعلیم کی ڈگری کے لیے۔ چھے سال وہیں گزارنے تھے،علاوہ گرمیوں کی چھٹیوں کے۔زادہِ راہ ساتھ لیا اور رخت سفر باندھ لیا۔دنیا جہان کی ہر چیز ساتھ رکھ لی جیسے مریخ پر جا رہے۔ کنگھی، تیل،شیشہ،صابن،شیمپو کی بوتل،فیس واش،خوشبو،نیل کٹر،قینچی، "ٹوتھ برش" دانت مانجھنے واسطے،پالش اور برش جوتے چمکانے واسطے۔۔۔ احتیاطاً سوئی دھاگہ بھی ساتھ رکھ لیا،کیا معلوم بٹن ٹوٹے یا دھاگہ ادھڑ جائے،ایک ممکنات یہ بھی کر لی کہ کوئی چمڑی نہ ادھیڑ لے، بوقت ضرورت کام آئے، سو، سلائی کا سامان بھی موجود ہو۔ حالانکہ اچھے وقتوں میں سب کام کیے میں نے! پراٹھے بڑے اچھے بناتا تھا۔اماں اب بھی یاد کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے سکول سے واپس آکر اکیڈمی جاتے ہوئے اپنے لیے خود دودھ پتی بناتا اور ساتھ میں روغنی پراٹھے بنا کر خود کو پیش کرتا۔۔۔اماں کہتی ہیں میری بہو کو بڑی آسانی ہو گی۔۔۔ٹھیک کہتی ہیں۔۔برتن دھو لیتا ہوں۔۔۔استری کر لیتا ہوں۔۔کپڑے دھونے میں ید طولیٰ حاصل ہے۔۔! یہ اپنی مشہوری نہیں کررہا بس زرا شوخی کرنے کو دل کررہا،لیکن مجھے مہنگی پڑنے والی ہے،مستقبل قریب میں۔۔۔!! خیر الف سے لے...

یہ عبرت کی جا ہے

سکول میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا کھیل و کود نے کبھی ا ن بٹنوں سے دیکھا ہے تو نے جو بھگوڑے تھے لڑکے وہ اب ہیں نمونے جگہ بھاگنے کی سکول نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے آئے امتحان میں سوال کیسے کیسے  دماغ جواب دے گئے کیسے کیسے لڑکوں نے نقل لگائی کیسے کیسے خلاصے لے گئے ساتھ کیسے کیسے جگہ نقل لگا نے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تما شہ نہیں ہے امتحانوں نے شر یف چھوڑا نہ ہی آوارا  اِ سی سے مجھ سا پڑَھاکو بھی ہا را ہر اک لے کے کیا کیا حسرت سیدھارا  ہر مضمون میں نمبر لیا صفر یارا جگہ افسوس کرنے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے رزلٹ نے پھر آ کے کیا کیا ستا یا استاد تیرا کر دے گا بالکل صفایا میٹرک میں کسی نے توَ پیپر حل کر ایا ایف ایس سی نے پھر تجھ کو پاگل بنایا جگہ رزلٹ بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ہے عیش و عشرت کا کوئی مکاں بھی جہاں تاک میں کھڑا ہو امتحاں بھی بس اپنے اس خوف سے نکل بھی  یہ طرزِ نقل ا ب اپنا بدل بھی جگہ طریقہ نقل بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ...