ہاسٹل میں گزرے یادگار دن۔
ہاسٹل رہنا تھا،اعلی تعلیم کی ڈگری کے لیے۔
چھے سال وہیں گزارنے تھے،علاوہ گرمیوں کی چھٹیوں کے۔زادہِ راہ ساتھ لیا اور رخت سفر باندھ لیا۔دنیا جہان کی ہر چیز ساتھ رکھ لی جیسے مریخ پر جا رہے۔
کنگھی، تیل،شیشہ،صابن،شیمپو کی بوتل،فیس واش،خوشبو،نیل کٹر،قینچی، "ٹوتھ برش" دانت مانجھنے واسطے،پالش اور برش جوتے چمکانے واسطے۔۔۔
احتیاطاً سوئی دھاگہ بھی ساتھ رکھ لیا،کیا معلوم بٹن ٹوٹے یا دھاگہ ادھڑ جائے،ایک ممکنات یہ بھی کر لی کہ کوئی چمڑی نہ ادھیڑ لے، بوقت ضرورت کام آئے، سو، سلائی کا سامان بھی موجود ہو۔
حالانکہ اچھے وقتوں میں سب کام کیے میں نے!
پراٹھے بڑے اچھے بناتا تھا۔اماں اب بھی یاد کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے سکول سے واپس آکر اکیڈمی جاتے ہوئے اپنے لیے خود دودھ پتی بناتا اور ساتھ میں روغنی پراٹھے بنا کر خود کو پیش کرتا۔۔۔اماں کہتی ہیں میری بہو کو بڑی آسانی ہو گی۔۔۔ٹھیک کہتی ہیں۔۔برتن دھو لیتا ہوں۔۔۔استری کر لیتا ہوں۔۔کپڑے دھونے میں ید طولیٰ حاصل ہے۔۔! یہ اپنی مشہوری نہیں کررہا بس زرا شوخی کرنے کو دل کررہا،لیکن مجھے مہنگی پڑنے والی ہے،مستقبل قریب میں۔۔۔!!
خیر الف سے لے کر بڑی ے تک سب چیزیں بیگ میں رکھ دیں۔ تلائی، تکیہ، چادر اور تولیہ ایک بورے میں گھسیڑ دیئے،اور رکھ دیئے سب گاڑی کے چھت پر۔
کاش ٹرین چلتی ہوتی مزہ دوبالا ہوجاتا۔۔۔!
لیکن یہاں ٹرین تو درکنار جو گاڑی ملی ، ایسی کہ دس جگہوں پر جب تک رکے نہیں آگے چلتی ہی نہیں۔اور روڈ ایسا کہ منزل تک پہنچتے پہنچتے انجر پنجر اپنے مستقل مقام سے ادھر ادھر کھسک جاتے ہیں۔
خیر ہاسٹل آ کر سوچتے رہے کہ ہمرے بغیر گھر کیسا لگ رہا ہوگا،سونا سونا ویران ویران سا..!
بھلے گھر والوں نے پیچھے سے کہا ہو جان چھوٹی سو لاکھوں پائے۔۔۔!
ہم نے پوچھنا گوارہ ہی نہیں کیا اس بارے،کہ عزت پیاری چیز ہے۔۔خاموشی بہتر ہے۔۔ چپ رہا جائے۔۔۔!!
خیر خوشی خوشی ہاسٹل آ گئے۔کمرہ دیکھا۔ہاسٹل مالک نے کمرہ دے دیا۔کمرہ تھا ایک نمبر!! ہم خوش ہوگئے کہ واہ بڑی عزت،ایک نمبر ہمیں دے دیا۔لیکن ہمیں کیا علم تھا ہم سے دو نمبری ہوگئی ہے۔۔
کمرہ بالکل روڈ کے پاس،اور ٹریفک کا شور۔۔کوئی گاڑی گزرتی تو ایسے لگتا جیسے سینے پر چل رہی ہو،ہارن بجے تو کان پھاڑ دے۔سورج نکلے تو ساری روشنی ہمارے کمرے میں۔۔۔اف خدایا۔۔۔کہاں پھنس گئے۔۔
زرا سی روشنی ہوئی،ادھر آنکھ کھل گئی،ادھر سوئی گری ادھر نیند خراب، ستیاناس۔۔۔
یہ گھر میں حال تھا ہمارا،سوتے ہوئے۔۔۔!!
اور ادھر ہاسٹل میں خیر سے کمرہ ہی ایسا مل گیا جہاں یہ سب "سہولیات" میسر تھیں۔کمرہ پہلا تھا لیکن اس کی سامنے والی دیوار شیشے کی تھی۔اور یہی مسئلے کی جڑ تھی۔
خیر جیسے تیسے سمسٹر گزارہ تو پھر بالکل کونے والا کمرہ خالی ہوا،وہاں چلے گئے۔۔! تین سال اسی میں گزار دیئے۔۔
کوئی سمیسیا نہیں ہوئی۔پرسکون گزار لیے۔
پانی اچھا تھا،روٹی بھی ہضم ہوجاتی تھی۔ہوٹل پر کھانا کھاتے۔چائے بھی دیتے تھے،لیکن اتنی کہ چکھنے واسطے۔ زیادہ پینی ہو تو زیادہ پیسے لگاؤ۔۔۔روٹی کی یہ خاصیت تھی چنگیر تک پہنچتے پہنچتے سوکھ جاتی،بعض دفعہ سوکھ کر کانٹا بھی بن جاتی،اور جیسے تیسے چنگیر تک پہنچتی، آتے ہی غائب ہوجاتی۔۔
کھانے والے تین پانچ راکھشس اور روٹی بیچاری ایک۔۔۔!
سو، دو سیکنڈ میں ختم..!!
سالن کبھی کبھی صحیح بھی بنا کے دیتے تھے،اچھے لوگ تھے۔۔ گھر میں ٹینڈے ہوں تو سو نخرے اور یہاں ہوئے تو چپ چاپ کھا لیے کہ سب ہی تو کھارہے ہم کونسا سونے کا چمچ لے کے "پیدا شُد" ہوئے۔
چلو چھوڑو تذکرہ ٹینڈوں کا۔۔ گوشت بھی ایسا ہوتا کہ ارادہ کرتے کہ اگلی بار ہم نہ ہی کھائیں گے۔۔۔اس سے تو دال بہتر ہے۔۔سستی پڑتی ہے۔۔لیموں نچوڑ لیا جائے تو قورمے کو بھی مات دے جائے..!!
پانی صحیح تھا۔۔ گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں ٹھنڈا یخ۔۔۔!! پینا پڑتا ہے۔۔طبیب کہتے پائے گئے اچھا ہوتا ہے پانی پینا۔۔سو پیتے ہیں۔۔۔لیکن چائے میں زرا گرم ہوتا ہے سو اسی پر گزارہ کرتے ہیں۔۔۔کبھی بلا کی چینی ہوتی گویا شربت ہے۔۔میٹھا دماغ کےلیے اچھا ہے سو یہی سوچ کے پی لیتےہیں۔۔اچھی سوچ ہے۔۔میٹھا جو کھاتے۔۔۔
دوست تھا ساتھ میرے۔۔۔ کبھی کبھار باقیوں سے چھپ کر بیکری پر چلے جاتے۔۔ رس گلےلیتے ایک پاؤ۔۔تین تین آجاتے حصے میں۔۔میری تو اتنی ہی کیپسٹی ہے تاحال۔۔۔اور رات کو سڑک کنارے،چادر کے نیچے یا قمیص کے پلو کے نیچے کیے ہوتے، چھپا کے کھا لیتے، کنجوس نہیں ہیں۔۔۔احتیاط ضروری ہے۔۔۔کوئی "آستین کا سانپ" یعنی دوست رستے میں مل جائے تو بچت ممکن ہو سکے۔۔۔
(جاری ہے..)
تحریر: رفاقت حیات
Comments
Post a Comment