Skip to main content

Posts

Showing posts from 2015
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی گزشتہ روز کراچی میں جو واقعہ پیش آیا اس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔سولہ سال کے نوجوان لڑکے نے اپنی محبوبہ کو پہلے قتل کیا اور پھر خود کشی کر لی۔تحقیقات کے مطابق لڑکے نے مرنے سے ایک دن قبل اپنے فیس بک پروفائل میں لکھا کہ میں کل مر جاؤں گا۔اس کے کمرے سے جب تلاشی لی گئی تو کئی خطوط اور ڈرائنگ ملیں تھیں۔خط میں لکھا تھا کہ میں اپنے والدین سے بہت پیار کرتا ہوں ۔اور میرے مرنے کے بعد میری قبر فاطمہ کے ساتھ بنائی جائے۔ہم اس جنم میں اکٹھے تونہ ہوسکے لیکن ہماری قبریں اکٹھی بنانا۔اس سے اگلے دن وہ سکول گیا۔اور اسمبلی کے وقت جب تمام طلباء اور طالبات سکول کے میدان میں تھے تو انہوں نے پٹاخے جیسے آواز سنی۔بعد میں جب کلاس آئے تو دیکھا کہ نوروز اور فاطمہ کی لاشیں پڑی ہیں۔گولی دونوں کے سروں سے آر پار ہو چکی تھی۔اور وہ خون میں نہا چکے تھے۔ اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔کیا یہ ان کی نا پختہ سوچ کی بنا پر ہوایا میڈیا کی غلاظت کا اثر تھا۔کیا یہ والدین کی تربیتی کمزوری تھی یا ہما

روح کی غذآ

روح کی غذا  وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر ’’یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی۰‘‘ ’’وہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔تو آپ کہہ دیجئے کہ روح اللہ کا حکم ہے۔‘‘ روح کی غذا کیا ہے؟روح کی غذا اللہ کا ذکر ہے۔جس طرح جسم غذا کے بغیر نہیں رہ سکتا ویسے ہی روح بھی بغیر غذا کے نہیں رہ سکتی۔آج کا پڑھا لکھا معاشرہ روح کی غذا موسیقی کو سمجھتا ہے۔تقریباً ہر شخص موسیقی کا دلداہ ہے۔آپ ہر نوجوان شخص کا کمپیوٹر چیک کرلیں،اس کا موبائل چیک کرلیں،اور اس میں آ پ کو گانے یا موسیقی سے متعلق کوئی ایسی چیز نہ ملے،قطعاً ممکن نہیں۔میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پچانوے فیصد لوگ ایسے ہوں گے جو موسیقی ضرور سنتے ہیں۔بعض حضرات تو یوں بھی کہتے ہیں کہ جب تک میں گانے نہ سن لوں اس وقت تک مجھے نیند نہیں آتی۔کس قدر افسوس ناک بات ہے،اگر خدانخواستہ اسی طرح موت آ جائے تو خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ آج ہمارے معاشرے میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے سوائے مساجد کے، جوموسیقی کی لعنت سے پاک نہ ہو۔ آپ سفر میں ہیں یا حضر میں ،یوں سمجھئے کہ موسیقی اور آپ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔آپ ایک دکان م
       آرٹی فیشل وہ مسخر ہ تھا اسے عادت تھی ہنسنے کی یہ دل کچھ او ر سمجھا اسے آنکھوں کی بیماری تھی یہ دل  کچھ اور سمجھا وہ بات   بات    پہ  بہت  مسکرا تا  تھا اسے لطیفے بہت  یا د  تھے  یہ دل کچھ اور سمجھا اس  کی  باتوں   سے  خوشبو   آتی  تھی وہ  ’ ’ ٹافیاں “  کھاتا تھا  یہ دل کچھ اور سمجھا اس کی  زلفیں  سیا ہ  تھیں  شب  کی  طرح و ہ  ”سن سلک “ استعمال کرتا تھا یہ دل کچھ اور سمجھا اس کی  رنگت  تھی   سرخ  گلاب کی طرح وہ ” فیس فریش“ استعمال کرتا  تھا  یہ دل کچھ او ر سمجھا اس کے  دانت  چمک دا ر تھے مو تیوں  کی  طرح وہ  ” کولیگیٹ “ استعمال کرتا تھا یہ د ل کچھ اور سمجھا اس  کے بدن سے خوشبو آتی تھی پھولوں کی طرح وہ  ”میڈورا‘ ‘ استعمال کرتا تھا یہ دل کچھ او ر سمجھا اس کے ناخن بہت ہی لمبے تھے اس کے ہاتھوں کی طرح اس کے گھر ’ ’ نیل کٹر“ نہیں تھا یہ دل کچھ اور سمجھا وہ لاکھوں میں  صرف  ایک ہی تھا خوبصورت شخص وہ ایک پور ا” جنرل سٹور“ تھا رفاقت، یہ دل کچھ او ر سمجھا

کرکٹ اور ہم

کرکٹ اور ہم ہماری پاکستانی قوم اپنا وقت جس بے دردی سے ضائع کر رہی ہے کہ اس سے دیکھ کہ یوں لگتا ہے کہ ہم نے اسی طرح پسماندہ قوم کا طوق اپنے گلے میں سجائے رکھنا ہے۔ہمیں وقت کی دوڑ میں حصہ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔دنیا چاند سے آگے مریخ تک پہنچ چکی ہے اور ہم ابھی تک’’ کنوئیں کا مینڈک‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ہماری ترقی اور امید صرف اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستانی ٹیم کرکٹ میچ جیت جائے۔اگر یہ جیت جائے تو ہم اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھے لگتے ہیں اور اگر ہار جائے تو ہم ایک دوسرے کو سمجھانے لگتے ہیں کہ فلاں کھلاڑی نے یہ کیا تو میچ ہار گئے اگر وہ ایسا کرتا تو میچ جیت جاتے۔جس کو دیکھو وہی میچ پر تبصرہ کر رہا ہے ،ہر ایک اپنا اپنا تجزیہ پیش کر رہا ہے۔ان تجزیوں تبصروں اور مشوروں سے بہتر ہے کہ یہ لوگ خود ٹیم میں شامل ہوجائیں تا کہ کچھ فائدہ ہی ہو جائے۔اب یہاں ہزاروں میل دور بیٹھ کر آپ کے تبصرے کا اس ٹیم کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ہاں البتہ یہ نقصان ضرور ہو رہا ہے کہ ہم اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔اور کچھ نہیں۔ جب کسی سے کہاجائے کہ بھائی صاحب میچ دیکھنے کا کیا فائدہ ،جب آخر میں پتہ چل ہی جائے گا کہ کون جیتا کو ن ہا

مزاحیہ تقریر

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز  اور ا ن کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز محٹرم سامعین بمعناظرین جناب صدر اینڈ آل بردرزالسلام علیکم! میری آج کی تقریر کا عنوان اس دن کے نام جس دن ،جس دن ،پتہ نہیں کیا ہوا تھا،میری آج کی تقریر اس دن کے نام جس دن،جس دن بہت کچھ ہو اتھا۔جنابِ صدر !میرے اس چھوٹے سے دل میں بڑی سی خواہشیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا انسان بننا چاہتا ہوں۔اتنا بڑا کہ میرا قد عالم چنا سے بھی بڑا دکھنے لگے۔میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے ملک کا نام روشن کر وں لیکن کمبخت واپڈا والے ایسا کرنے نہیں دیتے۔جب بھی پاکستان کا نام لکھ کر ۱۰۰ واٹ کے بلب پر لگاتا ہوں ،واپڈا والے بجلی ہی’’ چھک ‘‘لیتے ہیں ۔جنابِ صدر اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔آ پ خود اندازہ لگائیں کہ اگر آج واپڈا والے میری راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ،میری راہ میں روڑے نہ اٹکاتے،میری راہ میں کانٹے نہ بوتے اور سو واٹ کا بلب نہ بجھاتے تو میں عمران سیریز کاکم از کم ایک ناول ختم کر چکا ہوتا۔لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جنابِ صدر میں چاہتا ہوں کہ میں ایک سائنسدان بنوں اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کروں۔میرا سب سے پ

مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

                                                           مردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر  آج کل ایک انتہائی عجیب و غریب رواج چل نکلا ہے اور اس کا تعلق موبائل سے ہے۔ایک بندہ ایس ایم ایس کرتا ہے کہ یہ میسج اتنے آدمیوں کو سینڈ کر دو تمہارا جوکوئی مسئلہ ہے وہ حل ہو جائے گا،تمہیں کوئی بڑی خوشی ملے گی وغیرہ وغیرہ۔ایک میسج میں اللہ کے چند نام لکھے ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ آج اگر تم نے یہ اللہ کے نام سا ت بندوں کو بھیج دیئے تو صبح تک تمہارا سب سے بڑا کام ہوجائے گا۔بعض اوقات یوں لکھا ہوتا ہے کہ تمہیں نبی ﷺ کی قسم تمہیں یہ والا ایس ایم ایس ضرور سینڈ کرنا ہے۔ایک اور مثال کہ آج نبی ﷺ کو اتنے لاکھوں اور اتنے کروڑوں درود کا تحفہ دے رہے ہیں آپ بھی اس لڑی میں شریک ہو جائیے۔اور کم از کم ’’اتنے‘‘ بندوں کو بھیج دیجئے۔ امید ہے کہ آپ لوگوں کو اس قسم کے ایس ایم ایس سے واسطہ ضرور پڑتا ہو گا۔او ر آپ سینڈ بھی ضرور کرتے ہوں گے۔آئیے اب دیکھتے ہیں کہ یہ سب کس حد تک درست ہیں۔کیا ہمیں ایسا کرنا چاہئے یا نہیں ۔ آج کا مسلمان ایمانی لحاظ سے کمزور محسوس ہوتا ہے۔اور وجہ یہی دین سے دوری اور دنیا سے رغبت ہے۔
                                                             تفرقہ اور ہم آج کی مسلمان قوم فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔قوم کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔جو ایک قوم ہونے کا تقاضا تھا وہ ہم نے پورا نہیں کیا۔ہر شخص نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے۔کوئی حیاتی ہے تو کوئی مماتی۔کوئی نبیﷺ کو نور مانتا ہے تو کوئی بشر۔کوئی یہ کہتا ہے کہ آپﷺ ۲۱ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے تو کوئی کہتا ہے کہ آپﷺ اس دن کو رخصت ہوئے۔اب عام مسلمان شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔کس کی سنے اور کس کی نہیں۔کون سچ کہہ رہا ہے تو کون جھوٹ؟عام سے مسائل بھی بعض دفعہ پیچیدہ رخ اختیار کر لیتے ہیں۔اس تفرقہ بازی سے بچنے کے لئے اللہ نے قرآن میں فرما دیا کہ   ”اے ایمان والو!اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو“۔ اب یہاں پر دو باتیں ہیں۔یا تو ہم ایمان والے ہیں یا نہیں اگر ہیں تو پھر کیسے ایمان والے ہیں؟ آج ہم لوگ قرآن و سنت سے دور ہوئے تو فرقے بازی سے دوچار ہوئے۔جوں جوں ہم ان سے کنارہ کش ہوتے گئے توں توں ہم مزید فرقوں میں منقسم ہوتے گئے۔آج ہمارا اتحاد پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ہم لوگو