Skip to main content

روح کی غذآ

روح کی غذا 
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
’’یسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی۰‘‘
’’وہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔تو آپ کہہ دیجئے کہ روح اللہ کا حکم ہے۔‘‘
روح کی غذا کیا ہے؟روح کی غذا اللہ کا ذکر ہے۔جس طرح جسم غذا کے بغیر نہیں رہ سکتا ویسے ہی روح بھی بغیر غذا کے نہیں رہ سکتی۔آج کا پڑھا لکھا معاشرہ روح کی غذا موسیقی کو سمجھتا ہے۔تقریباً ہر شخص موسیقی کا دلداہ ہے۔آپ ہر نوجوان شخص کا کمپیوٹر چیک کرلیں،اس کا موبائل چیک کرلیں،اور اس میں آ پ کو گانے یا موسیقی سے متعلق کوئی ایسی چیز نہ ملے،قطعاً ممکن نہیں۔میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پچانوے فیصد لوگ ایسے ہوں گے جو موسیقی ضرور سنتے ہیں۔بعض حضرات تو یوں بھی کہتے ہیں کہ جب تک میں گانے نہ سن لوں اس وقت تک مجھے نیند نہیں آتی۔کس قدر افسوس ناک بات ہے،اگر خدانخواستہ اسی طرح موت آ جائے تو خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے؟
آج ہمارے معاشرے میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے سوائے مساجد کے، جوموسیقی کی لعنت سے پاک نہ ہو۔ آپ سفر میں ہیں یا حضر میں ،یوں سمجھئے کہ موسیقی اور آپ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔آپ ایک دکان میں چلے جایئے وہاں گانے،ایک ہوٹل میں چلے جایئے وہاں گانے،گاڑی میں بیٹھے ہیں وہاں گانے،کالج و سکول میں کوئی تقریب ہو رہی ہو وہاں گانے،کوئی شادی بیاہ ہو وہاں گانے..کونسی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں گانے نہ ہوں؟
ہم لوگ قرآن کی تلاوت اس قدر شوق اور توجہ سے نہیں سنتے کہ جس قدر گانے سنتے ہیں!۔قرآن کے ایک لفظ سننے پر ایک نیکی ہے،گانے سننے پر کیا ہے؟ایک نیکی بھی نہیں،صرف گناہ ہے...بس۔ہم لوگ کافی دلیر ہیں،ہم لوگ کہتے ہیں کہ گانے سن لئے تو کیا ہوا؟اگر گناہ مل گیا تو معافی مانگ لیں گے،وہ بڑا غفورالرحیم ہے۔معاف کر دے گا۔ہاں یقیناًوہ رحیم ہے،لیکن آپ شیطان کے اس بہکاوے میں ہر گز نہ آیئے گا کہ ہم معافی کے زور پر گناہ کر لیتے ہیں۔بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔قطعاً ایسا نہ سوچیں۔کیونکہ اگر آپ ایسا سوچیں گے تو آپ گناہ پر گناہ کرتے جائیں گیاور یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ کو معافی مانگنے کا موقع بھی نہ ملے اور موت سر پر آن کھڑی ہو جائے۔تو سوچیے اس وقت کیا ہو گا؟ایک منٹ تو کیا ایک سیکنڈ کی بھی مہلت نہیں دی جاے گی۔جب انسان ایک گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اگر وہ معافی نہ مانگے اور مزید گناہ اسی طرح کرتا رہے تو اس کے دل پر اسی طرح سیاہ نقطے لگتے جاتے ہیں حتیٰ کہ اس دل مکمل طور پر سیاہ ہو جاتا ہے اور انسان اچھائی اور برائی میں فرق کھو بیٹھتا ہے۔جو لوگ موسیقی کو گناہ نہیں سمجھتے وہ ذرا اپنے گریبان میں جھانک لیں کہ وہ کس سٹیج پر کھڑے ہیں۔
بد بخت ہے وہ شخص جو توبہ کی امید پر گناہ کرتا ہے۔اگر اللہ غفور الرحیم ہے تو وہ قھار اور جبار بھی ہے۔اگر اس کی رحمت اس کے غصے پر حاوی پر ہے تو اس کا عذاب بھی شدید ہے۔ہمیں ہر پہلو کو دیکھنا چاہییے نہ کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینی چاہییں۔جو لوگ گانا سنتے ہیں وہ یہ حدیث بھی سن لیں جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ’’قیامت کے روز گانا سننے والوں کے کانوں میں پگھلا ہو سیسہ ڈالا جائے گا‘‘۔
موسیقی روح کی غذا نہیں بلکہ بد روح کی غذا ہے۔موسیقی نفسانی خواہشات کو ابھارتی ہے۔موسیقی اور گانا روحانیت کے لیے قاتل ہیں،اور نفس کی حرام غذا ہیں۔ایک حدیث جس کا مفہوم یوں ہے کہ ’’ گانا دل میں نفاق کو یوں پیدا کرتاہے جیسے پانی سبزے کو‘‘۔
تو اب آپ خود انصاف کیجیے کہ روح کی غذا موسیقی ہو سکتی ہے؟اگر موسیقی روح کی غذا ہے تو مرنے والوں پر فاتحہ خوانی ااور قرآن خوانی کیوں کرائی جاتی ہے؟یہی موسیقی کرادی جائے،کیونکہ روح کی غذا جو موسیقی کو سمجھا جاتا ہے۔جب یہی شخص زندہ ہوتا ہے تو یہ روح کی غذا بن جائے ااور جب مر جائے تو اسے پوچھا تک بھی نہ جائے،کیا یہ انصاف ہے؟۔تو بات یہیں سے ثابت ہو جاتی ہے کہ روح کی غذا موسیقی نہیں بلکہ کوئی اور چیز ہے،اور وہ چیز یہی قرآن ہے،یہی ذکر و اذکار ہیں،یہی نماز ہے،یہی روزہ ہے اور یہی اسلام ہے۔
موسیقی شیطانی آواز ہے ،آج کل دیکھا گیا ہے کہ نعتوں نظموں میں بھی یہ شامل کی جارہی ہے۔اور جب یہ روحانی کلام کے ساتھ ہو تو بدترین حرام ہے۔حمد،نعت اور دینی نظموں کے ساتھ اس کا پڑھنا سخت بے ادبی اور شرعی حکم سے بغاوت کے مترادف ہے،کہ جن سے پاک ہستیوں نے ایک چیز سے
منع کیا ہے خود انہی کے ناموں کے ساتھ اسی چیز کو جوڑا جا رہا ہے،جس کو وہ اپنے دشمن کی آواز اور ہتھیار قرار دے چکے ہیں۔حمد ،نعت اور نظموں کے پسِ منظر میں موسیقی کی تا ل شر سے ملتی جلتی آوازیں جان بوجھ کر دی جارہی ہیں تا کہ ان سے مانوسیت پیدا ہو جائے۔ 
ہم سکون تلاش کرتے ہیں موسیقیت میں۔جب ہم پریشان ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟یہی موسیقی ہی تو سنتے ہیں۔اس سے بندہ مزید بے چین ہوجا تا ہے۔ہم لوگ اپنی اداسی کا علاج ادسی سے کرتے ہیں۔مقامِ افسوس ہے۔ایسی سوچ پر نہ رویا جایا سکتا ہے نہ ہنسا جا سکتا ہے۔ہم اپنی بیماری کا علاج دوسری بیماری میں ڈھونڈتے ہیں۔ہم ایک زخم8 کا علاج دوسرا زخم لگانے میں سمجھتے ہیں۔کس قدر نادانی کی بات ہے۔کرنا کیا چاہیے تھا؟کرنے کو تو یہ تھا کہ ہم تلاوتِ قرآن کرتے،اللہ کاذکر کرتے تب جاکے کہیں ہمیں سکون ملتا۔لیکن ہم اس کے الٹ کرتے ہیں۔قرآن میں ہے کہ:
’’دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے‘‘
ہمارا سکون کہاں چھپا ہے؟افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم اپنا سکون موسیقی میں تلاش کرتے ہیں۔ادھر رحمان ہے تو ادھر شیطان،ادھر اللہ کا حکم تو ادھر نفس کا حکم،ادھر روحانی خواہشات تو ادھر نفسیاتی خواہشات، ادھر اسلام ہے تو ادھر آج کا نام نہاد مسلمان،۔اسلام کہتا ہے سکون ذکر اللہ میں ہے،جب کہ آج کا نام نہاد مسلمان کہتا ہے،کہ سکون اللہ کے ذکر میں بھی ہے اور موسیقی میں بھی ....کس قدر اختلاف ہے...۔ہمارے پاس علم کے ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہے،نہ اچھے کی پہچان نہ برے کی پہچان،سکون حاصل کرنے اور بے سکونی رفع کرنے میں پتہ نہیں کہ سکون کس سے آئے گا،اور بے سکونی کس سے جائے گی؟بس اندھا دھند دوسروں کی تقلید کرنی ہے۔جب کسی سے کہا جائے کہ بھئی آپ گانا نہ سنا کریں،گناہ کا کام ہے،تو جواب ملتا ہے سبھی لوگ تو گانا سنتے ہیں،میں نے سن لیا تو کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑا؟۔آپ خود تصور کریں کہ اگر کچھ لوگ کنوئیں میں چھلانگ لگا دیں تو کیا آپ بھی ان کے ساتھ چھلانگ لگا دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟یقیناًنہیں تو پھر گناہ کا کام کرتے ہوئے دوسروں کی پیروی کیوں کرتے ہو؟قیامت کے دن آپ نے اپنے بارے میں جوابدہ ہونا ہے نہ کہ دوسروں کے متعلق،اس لیے اپنی فکر کریں اور خود کو سنواریں۔خود کو دیکھیں نہ کہ دوسروں کی طرف کہ فلاں کیا کر رہا ہے فلاں کیا رہا ہے؟
اگر آپ یہ سمجھ کر گاناسن رہے ہیں کہ جہاں اتنے سارے گناہ کر لیے ہیں وہاں ایک اور سہی۔یہ رویہ انتہائی غلط ہے کہ آپ گناہ پر بہادری دکھا رہے ہیں۔اور جو گناہ پر بہادری دکھائے یہ اس گناہ سے بھی بڑا گناہ ہے۔ہو سکتا ہے کہ جہاں آپ نے اتنے سارے گناہ کیے ہیں وہ آپ کی آخرت تباہ نہ کریں اور یہی ایک گناہ آپ کو جہنم میں لے جانے کا سبب بن جائے تو....؟
ہمیں اغیار نے ایک فقرہ بنا کے دے دیا کہ ’’موسیقی روح غذا ہے‘‘اور آج تک ہم اسی لکیر کو پیٹتے نظر آرہے ہیں،ہم نے یہ کوشش نہیں کی کہ اس کی اصل کیا ہے؟مجھے تو یہ فقرہ کہیں کسی اسلامی تاریخ میں نظر نہیں آیا،نہ کسی حدیث کی کتا ب میں نظر آیا نہ اصحاب کے ایسے اقوال نظر آئے۔کہ انہوں نے کہا ہو کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔جس سے پوچھوموسیقی کیوں سنتے ہو؟جواب ملتا ہے یہ روح کی غذا ہے،بھئی اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟جواب ملتا ہے یہ روح کی غذا ہے۔جناب یہ گناہ کا کام ہے۔جواب ملتا ہے موسیقی روح کی غذا ہے۔ہر سوال کا جواب یہی ،موسیقی روح کی غذا ہے۔اگرموسیقی روح کی غذا ہوتی تودنیا کے تمام روحانی لوگ اور انبیاء ا س کی صج شام ترویج کرتے۔نیک لوگ جو اپنی نظروں کی طرح کانوں کی حفاظت کرتے ہیں،زندہ ہی نہ رہ سکتے کہ نفس کی طرح روح بھی بغیر غذا کے نہیں رہ سکتی۔یہ شیطانی اڈوں کی بجائے روحانی مراکز میں ہوتی۔نفسانی خواہشات ابھار کر پیسہ کمانے والے سوداگر اس سے اپنا کاروبار نہ چمکاتے۔اس کو سننے سے نفسانی خواہشات ابھرنے کی بجائے روحانی کاموں کا جذبہ پیدا ہوتا۔دنیا کے تمام نفس مارے اس پر نہ ٹوٹتے،بلکہ بلند روحوں والے اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے۔
انسان چھوٹی کائنات اور یہ آسمان و زمین کے بیچ کی دنیا بڑی کائنات ہے۔جب دنیا میں موسیقی کی آواز ہر طرف عام ہوجائے گی اور اللہ کا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا تو اس کائنات کی روح سلب کر لی جائے گی،اور قیامت کا صور پھونک دیا جائے گا۔تعجب ہے کہ چھوٹی کائنات کے لیے اگر اللہ کے پاک
نام کی بجائے موسیقی روح کی غذا ہے تو پھر بڑی کائنات کی روح کیسے اس کی وجہ سے دم توڑ جائے گی؟
اب بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنے کیے ہوئے گناہوں پر صرف پچھتائیں ہی نہیں بلکہ ان سے توبہ کریں ،اور اللہ سے معافی مانگیں۔ہم ایسی توبہ کریں جس کے بعد پھر ہم گناہ نہ کریں۔آئیے ہم سب مل کر عہد کرتے ہیں کہ آج کے بعد ہم موسیقی پر تین حرف بھیجتے ہیں اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہتے ہیں۔
نکلی تو لب اقبال ؔ سے ہے ،کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا
پیغامِ سکون پہنچا بھی گئی ،دل محفل کا تڑپا بھی گئی

Comments

Popular posts from this blog

                ( نعت) ان کی آمد سے معطر ہو گئے دو جہاں جن کی خوشبو میں کھو گئے د و جہاں جن و انس میں بے مثل ہیں وہ مہرباں جن کی تعریف میں ہے ہی سارا قرآں اخلاق میں ا ن کی ایسی نفاست ہر یک بات میں ہے ان کی صداقت جن پر درود پڑھتا ہے خو د رحماں جن کی ہر ادا پہ ہے میرا سب قر باں محمدﷺ عربی کہ سراپاء ر حمت مکمل ہوئی ان سے دین کی نعمت نہ زور نہ زبردستی نہ دی کسی کو زحمت اخلاق سے اتاری دل میں یہ نعمت
ہاسٹل میں گزرے یادگار دن ( بقیہ) ہاسٹل ڈھونڈتے ہوئے پہلے یہی پوچھتے "نیٹ ہے؟ " چلتا بھی ہے یا نہیں۔۔! " "ابے پڑھنے آئے ہو یا نیٹ چلانے۔۔ ہاسٹل ہے کوئی نیٹ کیفے نہیں۔۔۔" دل میں ہاسٹل وارڈن کہتے ہونگے۔۔۔! "ارے ہم پیسے دیئے ہیں۔۔کوئی مفت میں نہیں رہنے آئے۔۔" ہم بھی دل میں ترکی بہ ترکی جواب دیتے۔۔۔! خیر زبان حال سے وارڈن بڑی تعریف کرتے۔۔اپنے دہی کو کھٹا کون کہتا ہے بھلا؟۔۔۔بتاتے بڑا تیز ہے یہاں کا وائی فائی،تمہاری زبان سے بھی۔۔۔ہم بھی مان لیتے۔۔رہتے،چلاتے۔۔نیٹ کچھوے کی رفتار سے چلتا ہے اور ادھر ہمارا ارادہ وہاں سے چلنے کا بنتا۔۔۔خیر ہمارے ارادے بھانپتے ہوئے اگلے دن نیٹ کی رفتار میں کافی فرق آجاتا۔۔ پھر ارادہ ترک کردیتے۔۔۔! بھلے گھر میں دس ایم بھی چلانے کی اجازت نہ ملتی ہو یہاں تو اندھیر نگری مچاتے۔۔۔اور اسی کا مطالبہ کرتے۔۔۔ یو پی ایس ہے؟ جنریٹر ہے؟ بجلی تو نہیں جاتی ناں؟!! "پاکستان میں ہی رہ رہے ہو بھایا!!!کوئی انگلستان نہیں!" "مفت میں کون رہ رہا ہے بھلا!!" ہمارا پھر وہی جواب۔۔لاجواب۔۔ سب کچھ ہے۔بجلی نہیں جاتی۔ جائے تو پنکھا ہم جھلی
          تقسیمِ عجب دل میں کثرتِ   فکر ہو    جس کی ہو وہ دولت دنیا کی یا دولت ایمان کی کانٹوں کی سیج لگے گا بسترِاستراحت عجب  تقسیم  ہے،     عجب فیصلہ