Skip to main content

کرکٹ اور ہم

کرکٹ اور ہم
ہماری پاکستانی قوم اپنا وقت جس بے دردی سے ضائع کر رہی ہے کہ اس سے دیکھ کہ یوں لگتا ہے کہ ہم نے اسی طرح پسماندہ قوم کا طوق اپنے گلے میں سجائے رکھنا ہے۔ہمیں وقت کی دوڑ میں حصہ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔دنیا چاند سے آگے مریخ تک پہنچ چکی ہے اور ہم ابھی تک’’ کنوئیں کا مینڈک‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ہماری ترقی اور امید صرف اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستانی ٹیم کرکٹ میچ جیت جائے۔اگر یہ جیت جائے تو ہم اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھے لگتے ہیں اور اگر ہار جائے تو ہم ایک دوسرے کو سمجھانے لگتے ہیں کہ فلاں کھلاڑی نے یہ کیا تو میچ ہار گئے اگر وہ ایسا کرتا تو میچ جیت جاتے۔جس کو دیکھو وہی میچ پر تبصرہ کر رہا ہے ،ہر ایک اپنا اپنا تجزیہ پیش کر رہا ہے۔ان تجزیوں تبصروں اور مشوروں سے بہتر ہے کہ یہ لوگ خود ٹیم میں شامل ہوجائیں تا کہ کچھ فائدہ ہی ہو جائے۔اب یہاں ہزاروں میل دور بیٹھ کر آپ کے تبصرے کا اس ٹیم کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ہاں البتہ یہ نقصان ضرور ہو رہا ہے کہ ہم اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔اور کچھ نہیں۔
جب کسی سے کہاجائے کہ بھائی صاحب میچ دیکھنے کا کیا فائدہ ،جب آخر میں پتہ چل ہی جائے گا کہ کون جیتا کو ن ہارا؟تو خواہ مخواہ ٹائم ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟۔تو اگے سے جواب بھی بہت خوب ملتا ہے کہ ’’جناب اگر میچ دیکھنے سے ٹائم ضائع ہو رہا ہے تو فلم،ڈرامے ،کہانیاں ،ناول اور رسالے پڑھنے سے نہیں ہوتا‘‘۔اور بیچارہ انہیں سمجھانے والا خود شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اب میں کیا کہوں؟۔
جہاں تک میرا خیال ہے کہ جتنا ٹائم اس فضول گیم کو دیکھنے میں ضائع ہوتا ہے وہ کسی اور چیز کے کرنے میں نہیں ہو تا۔آپ خود دیکھیں فلم کتنے گھنٹے کی ہو گی زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کی،ناول ایک نشست میں مکمل پڑھا نہیں جا سکتا،تھوڑا تھوڑا ٹائم نکال کر پڑھا جا سکتا ہے،اسی طرح کہانیاں اور باقی رسالے بھی ۔ادبی مواد پڑھنے میں جو ٹائم استعمال ہوتا ہے اس پر’’ٹائم کا ضیاع‘‘ کا ٹھپا لگانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم میں علم کی جو جستجو ہے وہ ذرا بھر بھی نہیں ہے۔رسالے پڑھنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے ،انسان کا ذخیرہ الفاظ بڑھتا ہے ،اور بہترین کرداروں کے کارنامے پڑھ کر انسان میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے،کرکٹ میں کیا ہے ؟کم از کم دیکھنے والوں کے لے کچھ نھیں موجود نہیں ہے۔نا تو اس سے کوئی علم میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے نہ اس سے دیکھنے میں انسان کی صحت بڑھتی ہے۔ایک کرکٹ میچ میں آدھے یا اس سے زیادہ کا دن گزر جاتا ہے۔اور دیکھنے والے کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔یہ بات سچ ضرور ہے کہ جس ملک کے کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں اس ملک کے ہسپتال ویران ہوتے ہیں۔لیکن یہ مقولہ ان کے لیے فائدہ مند ہے جو خود کھیل کے میدان میں ہوں،ان کے لیے نہیں جو ٹی وی سکرین کے آگے یوں جم کے بیٹھے ہوں کہ جیسے یہ میچ دیکھنے سے انسان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام ملے گا۔
ٹی وی کے آگے ایک لمبے وقت کے لیے بیٹھنا انسان کی صحت پر ناگوار اثر چھوڑتا ہے۔اور جو المیہ ہمارا اس سے تو کھیل کے میدان ویران اور ہسپتال آباد ہو جائیں گے۔
میں یہ تو نہیں کہتا انسان کھیل ختم کر دے ،اور اس سے بالکل ہی اپنا ناتا توڑ دے ۔بلکہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ وہ کھیل کو صرف کھیل سمجھ کر کھیلے۔ صرف کھیل ہی کو سب کچھ نہ سمجھے۔
ہمارے ملک کی حالت انتہائی نازک ہے اسے مضبوط بازوؤں کے سہارے کی ضرورت ہے اور اس کے مضبوط بازو اس ملک کے طالب علم ہیں ۔جنہیں قوم کا معمار کہا جاتا ہے ۔افسوس کا مقام ہے کہ یہی قوم کے معمار اپنا پورا پورا دن کرکٹ میچ دیکھنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔کچھ تو اس حد تک دیوانے ہیں کہ اگر میچ رات کے تین بجے کاسٹ کیا جائے گا تووہ پڑھائی کرنے کے لیے اتنی جلدی نہیں اٹھیں گے کہ جتنا ایک میچ کو دیکھنے کے لیے اٹھ جائیں گے۔پھر ہم کہتے ہیں کہ ہم ترقی نہیں کررہے ہیں۔اس طرح کیا خاک ترقی ہو گی؟صرف یہی نہیں بلکہ کچھ تو طالب علموں کو اس حد تک کر کٹ کی لت لگ چکی ہے کہ وہ کلاس روم میں بھی اپنے ساتھ ٹی وی والا موبائل لاتے ہیں اور ادھر ہی سے کر کٹ کا لائیو دیدا ر کر لیتے ہیں۔اب ایسا طالب علم پڑھائی پر کیا خاک توجہ دے گا۔صرف طالب علم ہی کیا ایک استاد بھی اپنے موبائل پر میچ دیکھ رہا ہے اور نہیں تو لمحہ بہ لمحہ’’ ٹیوٹیر ‘‘کی چیں چیں کلاس کا ماحول بگاڑنے میں بھی اپنے حصے کا کام سر انجام دے رہا ہے اب طالب علموں کو جن لوگوں نے سمجھانا تھا کہ وہ خود ہی اس بیماری کا شکار ہیں تو اس قوم کو سمجھانے کے لیے کوئی فرشتہ بھی آسمان سے نہیں اترنے والا۔ قوم کو جن سے ترقی کی امید ہے وہ خو دنہیں چاہتے کہ ہم ترقی کریں ۔وہ تو چاہتے ہیں کہ ایک وہ ہوں اور ایک میچ ہوں۔دنیا مرتی ہے تو مر جائے ۔ہمیں کیا لینا دینا۔

Comments

Popular posts from this blog

مزاحیہ تقریر

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز  اور ا ن کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز محٹرم سامعین بمعناظرین جناب صدر اینڈ آل بردرزالسلام علیکم! میری آج کی تقریر کا عنوان اس دن کے نام جس دن ،جس دن ،پتہ نہیں کیا ہوا تھا،میری آج کی تقریر اس دن کے نام جس دن،جس دن بہت کچھ ہو اتھا۔جنابِ صدر !میرے اس چھوٹے سے دل میں بڑی سی خواہشیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا انسان بننا چاہتا ہوں۔اتنا بڑا کہ میرا قد عالم چنا سے بھی بڑا دکھنے لگے۔میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے ملک کا نام روشن کر وں لیکن کمبخت واپڈا والے ایسا کرنے نہیں دیتے۔جب بھی پاکستان کا نام لکھ کر ۱۰۰ واٹ کے بلب پر لگاتا ہوں ،واپڈا والے بجلی ہی’’ چھک ‘‘لیتے ہیں ۔جنابِ صدر اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔آ پ خود اندازہ لگائیں کہ اگر آج واپڈا والے میری راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ،میری راہ میں روڑے نہ اٹکاتے،میری راہ میں کانٹے نہ بوتے اور سو واٹ کا بلب نہ بجھاتے تو میں عمران سیریز کاکم از کم ایک ناول ختم کر چکا ہوتا۔لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جنابِ صدر میں چاہتا ہوں کہ میں ایک سائنسدان بنوں اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کروں۔میرا سب ...
ہاسٹل میں گزرے یادگار دن۔ ہاسٹل رہنا تھا،اعلی تعلیم کی ڈگری کے لیے۔ چھے سال وہیں گزارنے تھے،علاوہ گرمیوں کی چھٹیوں کے۔زادہِ راہ ساتھ لیا اور رخت سفر باندھ لیا۔دنیا جہان کی ہر چیز ساتھ رکھ لی جیسے مریخ پر جا رہے۔ کنگھی، تیل،شیشہ،صابن،شیمپو کی بوتل،فیس واش،خوشبو،نیل کٹر،قینچی، "ٹوتھ برش" دانت مانجھنے واسطے،پالش اور برش جوتے چمکانے واسطے۔۔۔ احتیاطاً سوئی دھاگہ بھی ساتھ رکھ لیا،کیا معلوم بٹن ٹوٹے یا دھاگہ ادھڑ جائے،ایک ممکنات یہ بھی کر لی کہ کوئی چمڑی نہ ادھیڑ لے، بوقت ضرورت کام آئے، سو، سلائی کا سامان بھی موجود ہو۔ حالانکہ اچھے وقتوں میں سب کام کیے میں نے! پراٹھے بڑے اچھے بناتا تھا۔اماں اب بھی یاد کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے سکول سے واپس آکر اکیڈمی جاتے ہوئے اپنے لیے خود دودھ پتی بناتا اور ساتھ میں روغنی پراٹھے بنا کر خود کو پیش کرتا۔۔۔اماں کہتی ہیں میری بہو کو بڑی آسانی ہو گی۔۔۔ٹھیک کہتی ہیں۔۔برتن دھو لیتا ہوں۔۔۔استری کر لیتا ہوں۔۔کپڑے دھونے میں ید طولیٰ حاصل ہے۔۔! یہ اپنی مشہوری نہیں کررہا بس زرا شوخی کرنے کو دل کررہا،لیکن مجھے مہنگی پڑنے والی ہے،مستقبل قریب میں۔۔۔!! خیر الف سے لے...

یہ عبرت کی جا ہے

سکول میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا کھیل و کود نے کبھی ا ن بٹنوں سے دیکھا ہے تو نے جو بھگوڑے تھے لڑکے وہ اب ہیں نمونے جگہ بھاگنے کی سکول نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے آئے امتحان میں سوال کیسے کیسے  دماغ جواب دے گئے کیسے کیسے لڑکوں نے نقل لگائی کیسے کیسے خلاصے لے گئے ساتھ کیسے کیسے جگہ نقل لگا نے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تما شہ نہیں ہے امتحانوں نے شر یف چھوڑا نہ ہی آوارا  اِ سی سے مجھ سا پڑَھاکو بھی ہا را ہر اک لے کے کیا کیا حسرت سیدھارا  ہر مضمون میں نمبر لیا صفر یارا جگہ افسوس کرنے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے رزلٹ نے پھر آ کے کیا کیا ستا یا استاد تیرا کر دے گا بالکل صفایا میٹرک میں کسی نے توَ پیپر حل کر ایا ایف ایس سی نے پھر تجھ کو پاگل بنایا جگہ رزلٹ بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ہے عیش و عشرت کا کوئی مکاں بھی جہاں تاک میں کھڑا ہو امتحاں بھی بس اپنے اس خوف سے نکل بھی  یہ طرزِ نقل ا ب اپنا بدل بھی جگہ طریقہ نقل بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ...