Skip to main content
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
گزشتہ روز کراچی میں جو واقعہ پیش آیا اس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔سولہ سال کے نوجوان لڑکے نے اپنی محبوبہ کو پہلے قتل کیا اور پھر خود کشی کر لی۔تحقیقات کے مطابق لڑکے نے مرنے سے ایک دن قبل اپنے فیس بک پروفائل میں لکھا کہ میں کل مر جاؤں گا۔اس کے کمرے سے جب تلاشی لی گئی تو کئی خطوط اور ڈرائنگ ملیں تھیں۔خط میں لکھا تھا کہ میں اپنے والدین سے بہت پیار کرتا ہوں ۔اور میرے مرنے کے بعد میری قبر فاطمہ کے ساتھ بنائی جائے۔ہم اس جنم میں اکٹھے تونہ ہوسکے لیکن ہماری قبریں اکٹھی بنانا۔اس سے اگلے دن وہ سکول گیا۔اور اسمبلی کے وقت جب تمام طلباء اور طالبات سکول کے میدان میں تھے تو انہوں نے پٹاخے جیسے آواز سنی۔بعد میں جب کلاس آئے تو دیکھا کہ نوروز اور فاطمہ کی لاشیں پڑی ہیں۔گولی دونوں کے سروں سے آر پار ہو چکی تھی۔اور وہ خون میں نہا چکے تھے۔
اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔کیا یہ ان کی نا پختہ سوچ کی بنا پر ہوایا میڈیا کی غلاظت کا اثر تھا۔کیا یہ والدین کی تربیتی کمزوری تھی یا ہمارا نظامِ تعلیم میں کمی کوتاہی تھی۔ اتنی کم عمر میں قتل اور خود کشی کرنا ہمار ے معاشرے کے کلچر پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں میڈیا کی،کہ ہمارا میڈیا کس تہذیب کو زیادہ فروغ دے رہا ہے۔
برصغیر پاک و ہند پر کئی سال انگریزوں نے حکومت کی۔پاکستان کے وجود میں آتے ہی ہمیں انگریزوں کے تسلط سے نجات ملی۔اور ہم ’’آزاد‘‘ ہوگئے۔غلامی کی زنجیروں سے چھٹکارا ملا۔اور ہم نے ان کی جسمانی غلامی سے آزادی حاصل کر لی۔لیکن آج تک ہم ان کے ذہنی غلام ہیں۔آپ جہاں سے چاہیں جو مرضی چاہیں مثال لے لیں۔ہر طرف ہماری ذہنی غلامی کی بڑی بڑی دلیلیں پڑی ہیں۔کھانے پینے کے طور طریقوں سے لے کر تعلیم حاصل کرنے تک ہم ان کے پیروکار ہیں۔اور یہ سب الہامی طریقے سے ہمارے ہاں نہیں پہنچا۔بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم منصوبہ بندی موجود ہے۔ٹی وی،ڈش، کیبل ،انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے پنجوں میں ہمیں جکڑا گیا۔ہمارا میڈیا آج بک چکا ہے۔اور یہ صرف مغرب کے چمچا بن چکا ہیں۔جو وہ کہتے ہیں وہ یہی دکھاتا ہے۔وہ کہیں دن کو رات کہو تو یہ بھی دن کو رات کہیں گے،وہ سچ کو جھوٹ کہیں تو یہ بھی سچ کو جھوٹ کہیں گے۔ہمارے میڈیا کی عقل گھاس چرنے جا چکی ہے اور وہ ایک روبوٹ بن چکا ہے۔جس کا کنٹرول مغرب کے ہاتھ میں ہے،جب چاہا جدھر چاہا موڑ دیا۔
آج کل کے ڈراموں اور فلموں میں یہی تو سکھایا جاتا ہے۔جو چینل آن کر لیں اس پر شور شرابا ،مار دھاڑ،لوٹ، قتل اورڈاکے مارنے جیسے واقعات منظم طریقے سے دیکھائے جاتے ہیں ،اور بعض دفعہ تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم اس دنیا میں یہی کچھ سکیھنے کے لیے آئے ہیں۔ اگر ہمارا میڈیا بعض نہ آیا تو چند سالوں بعد حالات اور بھی گھمبیر ہو جائیں گے۔حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی فلموں اور ڈراموں پر پابندی عائد کرے جو اخلاق سوز ہوں،جن سے کچے ذہنوں پر برے اثرات نہ پڑیں۔
اگر ہم والدین کی بات کریں تو اس حوالے سے بھی ہمارا معاشرہ بہت گر چکا ہے۔والدین نے صرف یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کا کام ہے بچوں کو کھانا کھلا دینا،نئے کپڑے ،جوتے اور موبائل لے دینا،بس۔وہ زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں اپنی اولاد سے دور ہو چکے ہیں۔اور جس مناسبت سے انہیں والدین کے فضائل ملے ہیں اس طرف ان کا دھیان ہی نہیں۔بچوں کو سکول اور مسجد بھیج دینے کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کر لیا ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی روز مرہ سرگرمیوں پر پوری طرح نظر رکھیں۔ان کے بیگز چیک کریں۔ان کا روزانہ کمرہ دیکھیں ،بچوں کے موبائل اور کمپیوٹرز چیک کریں کہ وہ کس قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔اگر کہیں وہ غلط بات دیکھیں تو فوراً ٹوکیں،اگر اس سے بھی بعض نہ آئیں تو شریعت کے مطابق انہیں سزا بھی دیں۔
ہم پاکستانی لوگوں کی یہ بہت بڑی کمزوری ہے کہ ہم چیز وہی خریدتے ہیں جو سب سے مہنگی ہو۔اور مہنگی خریدنے کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں ان کی ناک اونچی رہے،لوگ انہیں بہت زیادہ دولت مند سمجھیں۔
اگر کہا جائے کہ بھئی سستی چیز لے لو تو جواب ملتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ہاں اگر ہمیں اپنے بچوں سے زیادہ لوگوں کی باتوں کی پرواہ ہے تو ہمیں اس بات پر افسوس نہیں کرنا چاہیے کہ وہ قتل او خود کشی کیوں کر رہے ہیں۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عام طور پر پرائیویٹ سکولز میں فیسیس زیادہ ہوتی ہیں۔اور لوگ دھڑا دھڑ اپنے بچوں کو ان سکولز میں داخل کرواتے ہیں۔اب پرائیویٹ سکول چلانے والوں کو اس بات سے غرض نہیں ہے کہ بچہ صحیح طرح سے علم حاصل کر پارہا ہے یا نہیں اور یہ کہ ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے اسلام کی تعلیمات پر عمل کیا جارہا ہے یا نہیں۔ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا،انہیں تو بس اپنی فیسوں کی فکر ہوتی ہے۔اور اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی کلاس میں پڑھ رہے ہیں۔مخلوط تعلیم کا رواج ہمیں اخلاقی پستی کی طرف لے جارہا ہے۔حکومت چاہے بھی تو مخلوط تعلیم کو ختم نہیں کر سکتی کیونکہ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے جو لیتی ہے۔اور یہ ان کی شرائط میں ہی ہے کہ مخلوط تعلیم رائج کی جائے۔اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایسے سکول میں داخل ہی نہ کرائیں کہ جہاں مرد و زن ایک بینچ پر بیٹھ کر علم حاصل کریں،اس طرح ایسے ادارے خود بخود دم توڑ جائیں گے۔تب جا کے ہمیں اس لعنت سے چھٹکارا ملے گا۔
بعض روشن خیال حضرات مخلوط تعلیم کے حق میں بودی بودی سی دلیلیں دیتے ہیں کہ اس سے لڑکوں اور لڑکیوں میں موجود جھجک ختم ہوتی ہے اوران کے درمیان ایک مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔یہ سب سراب ہے،اس کے علاہ اور کچھ نہیں۔ان حضرات کے لیے سب سے مفید مشورہ یہی ہے کہ وہ درج ذیل سطور کو یاد کر لیں۔
جنید بغدای سے کسی نے پوچھا کہ کیا کوئی مرد کسی غیر محرم لڑکی کو پڑھا سکتا ہے؟
تو آپ نے فرمایا کہ اگر پڑھانے والا بایزید بسطامی ہوں اور پڑھنے والی رابعہ بصری ہوں،جس جگہ پڑھایا جا رہاہو،وہ بیت اللہ شریف ہوں اور جو کچھ پڑھایا جا ئے وہ قرآن پاک ہو ،پھر بھی اجازت نہیں۔
کیا آج ہم بایزید بسطامی او رابعہ بصری جیسے بزرگوں سے بھی زیادہ بڑھے ہوئے ہیں؟کیا جس جگہ ہم پڑھ رہے ہیں وہ بیت اللہ سے بھی زیادہ مقدس ہے؟کیا جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں وہ قرآن سے بھی زیادہ افضل ہے؟(نعوذ باللہ)....تو پھر مخلوط تعلیم مخلوط تعلیم کو نعرہ کیوں لگاتے ہیں؟اس وجہ سے خود کو روشن خیال ثابت کر سکیں یا اس وجہ سے خود کو یورپ کا غلام ثابت کریں۔

Comments

Popular posts from this blog

مزاحیہ تقریر

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز  اور ا ن کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز محٹرم سامعین بمعناظرین جناب صدر اینڈ آل بردرزالسلام علیکم! میری آج کی تقریر کا عنوان اس دن کے نام جس دن ،جس دن ،پتہ نہیں کیا ہوا تھا،میری آج کی تقریر اس دن کے نام جس دن،جس دن بہت کچھ ہو اتھا۔جنابِ صدر !میرے اس چھوٹے سے دل میں بڑی سی خواہشیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا انسان بننا چاہتا ہوں۔اتنا بڑا کہ میرا قد عالم چنا سے بھی بڑا دکھنے لگے۔میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے ملک کا نام روشن کر وں لیکن کمبخت واپڈا والے ایسا کرنے نہیں دیتے۔جب بھی پاکستان کا نام لکھ کر ۱۰۰ واٹ کے بلب پر لگاتا ہوں ،واپڈا والے بجلی ہی’’ چھک ‘‘لیتے ہیں ۔جنابِ صدر اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔آ پ خود اندازہ لگائیں کہ اگر آج واپڈا والے میری راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ،میری راہ میں روڑے نہ اٹکاتے،میری راہ میں کانٹے نہ بوتے اور سو واٹ کا بلب نہ بجھاتے تو میں عمران سیریز کاکم از کم ایک ناول ختم کر چکا ہوتا۔لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جنابِ صدر میں چاہتا ہوں کہ میں ایک سائنسدان بنوں اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کروں۔میرا سب ...
ہاسٹل میں گزرے یادگار دن۔ ہاسٹل رہنا تھا،اعلی تعلیم کی ڈگری کے لیے۔ چھے سال وہیں گزارنے تھے،علاوہ گرمیوں کی چھٹیوں کے۔زادہِ راہ ساتھ لیا اور رخت سفر باندھ لیا۔دنیا جہان کی ہر چیز ساتھ رکھ لی جیسے مریخ پر جا رہے۔ کنگھی، تیل،شیشہ،صابن،شیمپو کی بوتل،فیس واش،خوشبو،نیل کٹر،قینچی، "ٹوتھ برش" دانت مانجھنے واسطے،پالش اور برش جوتے چمکانے واسطے۔۔۔ احتیاطاً سوئی دھاگہ بھی ساتھ رکھ لیا،کیا معلوم بٹن ٹوٹے یا دھاگہ ادھڑ جائے،ایک ممکنات یہ بھی کر لی کہ کوئی چمڑی نہ ادھیڑ لے، بوقت ضرورت کام آئے، سو، سلائی کا سامان بھی موجود ہو۔ حالانکہ اچھے وقتوں میں سب کام کیے میں نے! پراٹھے بڑے اچھے بناتا تھا۔اماں اب بھی یاد کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے سکول سے واپس آکر اکیڈمی جاتے ہوئے اپنے لیے خود دودھ پتی بناتا اور ساتھ میں روغنی پراٹھے بنا کر خود کو پیش کرتا۔۔۔اماں کہتی ہیں میری بہو کو بڑی آسانی ہو گی۔۔۔ٹھیک کہتی ہیں۔۔برتن دھو لیتا ہوں۔۔۔استری کر لیتا ہوں۔۔کپڑے دھونے میں ید طولیٰ حاصل ہے۔۔! یہ اپنی مشہوری نہیں کررہا بس زرا شوخی کرنے کو دل کررہا،لیکن مجھے مہنگی پڑنے والی ہے،مستقبل قریب میں۔۔۔!! خیر الف سے لے...

یہ عبرت کی جا ہے

سکول میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا کھیل و کود نے کبھی ا ن بٹنوں سے دیکھا ہے تو نے جو بھگوڑے تھے لڑکے وہ اب ہیں نمونے جگہ بھاگنے کی سکول نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے آئے امتحان میں سوال کیسے کیسے  دماغ جواب دے گئے کیسے کیسے لڑکوں نے نقل لگائی کیسے کیسے خلاصے لے گئے ساتھ کیسے کیسے جگہ نقل لگا نے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تما شہ نہیں ہے امتحانوں نے شر یف چھوڑا نہ ہی آوارا  اِ سی سے مجھ سا پڑَھاکو بھی ہا را ہر اک لے کے کیا کیا حسرت سیدھارا  ہر مضمون میں نمبر لیا صفر یارا جگہ افسوس کرنے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے رزلٹ نے پھر آ کے کیا کیا ستا یا استاد تیرا کر دے گا بالکل صفایا میٹرک میں کسی نے توَ پیپر حل کر ایا ایف ایس سی نے پھر تجھ کو پاگل بنایا جگہ رزلٹ بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ہے عیش و عشرت کا کوئی مکاں بھی جہاں تاک میں کھڑا ہو امتحاں بھی بس اپنے اس خوف سے نکل بھی  یہ طرزِ نقل ا ب اپنا بدل بھی جگہ طریقہ نقل بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ...