Skip to main content

                                                             تفرقہ اور ہم
آج کی مسلمان قوم فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔قوم کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔جو ایک قوم ہونے کا تقاضا تھا وہ ہم نے پورا نہیں کیا۔ہر شخص نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے۔کوئی حیاتی ہے تو کوئی مماتی۔کوئی نبیﷺ کو نور مانتا ہے تو کوئی بشر۔کوئی یہ کہتا ہے کہ آپﷺ ۲۱ربیع الاول کو اس دنیا میں تشریف لائے تو کوئی کہتا ہے کہ آپﷺ اس دن کو رخصت ہوئے۔اب عام مسلمان شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔کس کی سنے اور کس کی نہیں۔کون سچ کہہ رہا ہے تو کون جھوٹ؟عام سے مسائل بھی بعض دفعہ پیچیدہ رخ اختیار کر لیتے ہیں۔اس تفرقہ بازی سے بچنے کے لئے اللہ نے قرآن میں فرما دیا کہ   ”اے ایمان والو!اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو“۔
اب یہاں پر دو باتیں ہیں۔یا تو ہم ایمان والے ہیں یا نہیں اگر ہیں تو پھر کیسے ایمان والے ہیں؟
آج ہم لوگ قرآن و سنت سے دور ہوئے تو فرقے بازی سے دوچار ہوئے۔جوں جوں ہم ان سے کنارہ کش ہوتے گئے توں توں ہم مزید فرقوں میں منقسم ہوتے گئے۔آج ہمارا اتحاد پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ہم لوگوں سے صرف ایک ہی غلطی ہوئی کہ ہم نے قرآن کی بات پر عمل نہیں کیا،ہم سنت کو بھلا دیا،ہم نے نبی ﷺ کے احکام کو پس ِ پشت ڈال دیا۔اور نتیجہ ہم سب لوگ آج بھگت رہے ہیں۔
ہماری سوچ اب کچھ اس قسم کی بن گئی ہے کہ ہم لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ کہ دین کام صرف اور صرف مولویوں کا ہے۔ہم نے دین کو مدارس تک محدود کر دیاہے۔عام لوگوں کو دین کے سادہ سادہ سے مسائل کا علم نہیں۔بعض دفعہ یوں ہوتا ہے کہ ہم لوگ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے۔اور اسی پر اڑ جاتے ہیں کہ جو ہم کہہ رہے ہیں وہی ۰۰۱فی صد درست ہے۔او ر  اگر کوئی اصلاح کرے تو بھی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہتا ہے کہ  جناب اپنی غلطی نہیں مانتے ہیں او سے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور بعض دفعہ نتا ئج بھیانک نکلتے ہیں۔اور اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے ہم وہ سب کچھ کر گزر جاتے ہیں جو نہ تو سوچا جا سکتا ہے اور نہ سمجھا۔اکثر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے قرآ ن اور حدیث کو اپنا تختہئ مشق بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔قرآن اور حدیث سے اپنی مرضی کا مفہوم نکالا اور اسی پر قائم رہا۔جب یہی بات عام مسلمانوں تک پہنچتی ہے تو معاملہ سارے کا سارا یہیں سے گڑ بڑ ہو جاتا ہے۔آج کے عام مسلمان تو چونکہ پہلے ہی اس سے نا بلد ہوتے ہیں سو وہ بھی یہی خیال کر لیتے ہیں کہ جو شخص یہ بات کہہ رہاہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔اور یہ کہ جو وہ حدیث بتا رہا ہے وہ من و عن اسی طرح نقل کر رہاہے۔بتا نے والا حوالہ بھی ضرور بتائے گا،(کیونکہ اس کے بغیر بات دل میں نہیں اترے گی)لیکن اسے یہ بات معلوم ہے کہ میں جن کو بتا رہا ہوں انہوں نے نہ تو کبھی قرآن دیکھا ہو گا اور نہ حدیث چہ جائیکہ کہ وہ حوالہ دیکھیں۔اکثر یوں ہی ہوتا ہے۔ایک سروے کے مطابق ۰۹ فی صد لوگ حوالہ نہیں دیکھتے،اس کی چھان بین نہیں کرتے کہ آیا وہ ٹھیک ہے یاغلط؟۔اور یہی وجہ ہے کہ ہم فرقے بازی میں لگ جاتے ہیں۔چاہئے تو یہ تھا کہ حوالہ دیکھتے۔اگر سچا نکلا تو ٹھیک ورنہ اس جماعت سے کنارہ کشی کرلے۔اور حق کو تسلیم کر لے۔یہی انسان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ حق کو ماننے میں ذرا بھر بھی سمجھوتہ نہ کرے اور باطل کو آن کی آن میں ٹھکرا دے۔
جاتے جاتے میں آپ  سے ایک سوال کروں گا کہ اگر بالفرض ہم سب لوگ یہ مان لیں کہ نبی کریم ﷺ زندہ ہیں یا نہیں؟،وہ نور ہیں یا بشر؟،یعنی سو فی صد لوگ ایک ہی بات پر متفق ہو جائیں تو کیا ہمارے وہ تمام مسائل جن میں آج ہم لوگ الجھے ہوئے ہیں حل ہو جائیں گے؟ہم لوگوں کا رویہ کچھ اسی قسم کا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ہی مسائل کے حل میں باقی تمام مسائل کا حل پوشیدہ ہے یا یہ کہ اگر یہ حل ہو جائیں تو پھر کوئی مسئلہ ہی باقی نہ رہے۔بہر حال انسان اپنی عقل سے یہ سوچے کہ کیا ہم اس وقت تک جنت میں داخل نہ کئے جائیں گے کہ جب تک ان سوالوں کا جواب نہ دے دیں؟نبی ﷺ کو بشر کیوں نہیں مانا یا یہ کہ ان کو نور کیوں نہیں مانا،ان کو زندہ کیوں نہیں مانا یا ان کو مردہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔جیسے بچگانہ سوال۔ہم  اپنے آپ سے ایک سوال کریں کہ کیا ہم وہ سب کر رہے ہیں جن کو کرنے میں اللہ نے حکم دیاہے؟کیا اللہ نے ہمیں فرقے بازی سے منع نہیں کیا؟ اور کیا ہم اس سے رکے؟؟
ہم سب کو آج ضرورت ہے متحد ہونے کی،پھر سے ایک ہو جانے کی،نفرتیں مٹانے کی اورمحبتیں پھیلانے کی۔ہمارے ملک کے حالات دن بدن مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔ان حالات کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور ادھر اپنے دین کا حال دیکھ کر رہی کسر بھی پوری ہو جاتی ہے۔لیکن ہم لوگ ابھی تک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔اگر ہم اب بھی اکٹھے نہ ہوئے تو یقین جانئے ہم سب کے سب یوں ہی ختم ہو جائیں۔بات پھر وہی بن جائے گی کہ داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔ہم سب کو چاہیے کہ ہم وہ تمام مسائل حل کرنے کی اکٹھی کوشش کریں جن کی وجہ سے آج ہمارا یہ حال ہے۔خود کو بھی تفرقے سے بچائیں اور دوسروں کو بھی۔اتحاد کے پیغام کو عام کریں،اور پوری دنیا میں اسلام کا نام روشن کریں۔
01.01.2015

Comments

Popular posts from this blog

مزاحیہ تقریر

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز  اور ا ن کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز محٹرم سامعین بمعناظرین جناب صدر اینڈ آل بردرزالسلام علیکم! میری آج کی تقریر کا عنوان اس دن کے نام جس دن ،جس دن ،پتہ نہیں کیا ہوا تھا،میری آج کی تقریر اس دن کے نام جس دن،جس دن بہت کچھ ہو اتھا۔جنابِ صدر !میرے اس چھوٹے سے دل میں بڑی سی خواہشیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا انسان بننا چاہتا ہوں۔اتنا بڑا کہ میرا قد عالم چنا سے بھی بڑا دکھنے لگے۔میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے ملک کا نام روشن کر وں لیکن کمبخت واپڈا والے ایسا کرنے نہیں دیتے۔جب بھی پاکستان کا نام لکھ کر ۱۰۰ واٹ کے بلب پر لگاتا ہوں ،واپڈا والے بجلی ہی’’ چھک ‘‘لیتے ہیں ۔جنابِ صدر اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔آ پ خود اندازہ لگائیں کہ اگر آج واپڈا والے میری راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ،میری راہ میں روڑے نہ اٹکاتے،میری راہ میں کانٹے نہ بوتے اور سو واٹ کا بلب نہ بجھاتے تو میں عمران سیریز کاکم از کم ایک ناول ختم کر چکا ہوتا۔لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جنابِ صدر میں چاہتا ہوں کہ میں ایک سائنسدان بنوں اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کروں۔میرا سب ...
ہاسٹل میں گزرے یادگار دن۔ ہاسٹل رہنا تھا،اعلی تعلیم کی ڈگری کے لیے۔ چھے سال وہیں گزارنے تھے،علاوہ گرمیوں کی چھٹیوں کے۔زادہِ راہ ساتھ لیا اور رخت سفر باندھ لیا۔دنیا جہان کی ہر چیز ساتھ رکھ لی جیسے مریخ پر جا رہے۔ کنگھی، تیل،شیشہ،صابن،شیمپو کی بوتل،فیس واش،خوشبو،نیل کٹر،قینچی، "ٹوتھ برش" دانت مانجھنے واسطے،پالش اور برش جوتے چمکانے واسطے۔۔۔ احتیاطاً سوئی دھاگہ بھی ساتھ رکھ لیا،کیا معلوم بٹن ٹوٹے یا دھاگہ ادھڑ جائے،ایک ممکنات یہ بھی کر لی کہ کوئی چمڑی نہ ادھیڑ لے، بوقت ضرورت کام آئے، سو، سلائی کا سامان بھی موجود ہو۔ حالانکہ اچھے وقتوں میں سب کام کیے میں نے! پراٹھے بڑے اچھے بناتا تھا۔اماں اب بھی یاد کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے سکول سے واپس آکر اکیڈمی جاتے ہوئے اپنے لیے خود دودھ پتی بناتا اور ساتھ میں روغنی پراٹھے بنا کر خود کو پیش کرتا۔۔۔اماں کہتی ہیں میری بہو کو بڑی آسانی ہو گی۔۔۔ٹھیک کہتی ہیں۔۔برتن دھو لیتا ہوں۔۔۔استری کر لیتا ہوں۔۔کپڑے دھونے میں ید طولیٰ حاصل ہے۔۔! یہ اپنی مشہوری نہیں کررہا بس زرا شوخی کرنے کو دل کررہا،لیکن مجھے مہنگی پڑنے والی ہے،مستقبل قریب میں۔۔۔!! خیر الف سے لے...

یہ عبرت کی جا ہے

سکول میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا کھیل و کود نے کبھی ا ن بٹنوں سے دیکھا ہے تو نے جو بھگوڑے تھے لڑکے وہ اب ہیں نمونے جگہ بھاگنے کی سکول نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے آئے امتحان میں سوال کیسے کیسے  دماغ جواب دے گئے کیسے کیسے لڑکوں نے نقل لگائی کیسے کیسے خلاصے لے گئے ساتھ کیسے کیسے جگہ نقل لگا نے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تما شہ نہیں ہے امتحانوں نے شر یف چھوڑا نہ ہی آوارا  اِ سی سے مجھ سا پڑَھاکو بھی ہا را ہر اک لے کے کیا کیا حسرت سیدھارا  ہر مضمون میں نمبر لیا صفر یارا جگہ افسوس کرنے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے رزلٹ نے پھر آ کے کیا کیا ستا یا استاد تیرا کر دے گا بالکل صفایا میٹرک میں کسی نے توَ پیپر حل کر ایا ایف ایس سی نے پھر تجھ کو پاگل بنایا جگہ رزلٹ بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ہے عیش و عشرت کا کوئی مکاں بھی جہاں تاک میں کھڑا ہو امتحاں بھی بس اپنے اس خوف سے نکل بھی  یہ طرزِ نقل ا ب اپنا بدل بھی جگہ طریقہ نقل بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ...