Skip to main content

Posts

Showing posts from December, 2014
ہم بڑے فخر سے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ آج ہمارا’’برتھ ڈے‘‘ ہے۔اور خوشی ے جھومتے جھامتے اس دن کو ’’مناتے ‘‘ہیں۔اور جو اس دن کو منانے سے منع کرتے ہیں یا نہیں مناتے ہمارے اس روشن خیال معاشرے میں اسے دقیانوسی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔کبھی کبھی میں اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ شاید واقعی یہ اسلام کا حصہ ہے؟کہ مسلمان اس دن کو کافی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔لیکن پھر جب اسلاف کی تاریخ اٹھا کہ دیکھتا ہوں تو وہاں اس نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔شاید پچھلے زمانے کے لوگوں کو اس کی ’’اہمیت‘‘ کا اندازہ نہ تھا یا یہ شروع ہی سے اسلام میں نہ تھی؟۔ تو پھر بات صاف ظاہر ہے کہ اگر اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہوتی تو اسلام ہمیں اس کو منانے کا ضرور حکم دیتا۔عجیب بات ہے کہ انسان کی زندگی کا ایک سال ختم ہوجاتا ہے اور وہ اس پر خوشی مناتا ہے کہ لو جی ہماری زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے۔اور اپنے رشتے داروں،دوستوں اور دوسرے لوگوں میں اس بات کا چرچا کرتا ہے کہ جی کل ہمارے گھر آئیے گا ہمارا’’برتھ ڈے ‘‘ہے۔مجھے تو اس کا کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا۔ہاں البتہ کوئی یہ بات کہہ دے کہ اس دن انسان رشتے داروں سے مل لیتا ہے تو رشتہ او...
یہ کیسا دور ہے؟ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔پہلے پتھروں کا زمانہ تھا اب یوں لگتا ہے کہ ہم پتھر کے دور سے نکلتے ہی خون کے دور میں آ گئے ہیں۔اس دور میں آدمی کا خون اس قدر ارزاں ہو گیا ہے کہ ہر صبح ہر شام قتل پے قتل ہو رہے ہیں۔اس بار تو دہشت گردوں نے اپنے ظلم کی تمام حدود پار کر دیں۔امن و امان کو پارہ پارہ کر دیا۔اور یہ لوگ اسلام کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ اور ان ہی مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔مرنے والا بھی کلمہ گو اور مارنے والا بھی۔فرق صرف اتنا ہے کہ مرنے والے کو نہیں پتہ کہ میں کیوں مارا جا رہا ہوں؟ یہ نام نہاد مسلمان جو خود کو اسلام کا سچا پیروکار سمجھتے ہیں اپنی مرضی سے احادیث مبارک کا ترجمہ ہیر پھیر کر کے اسلام کو بدنام کرنا چاہتے ہیں (نعوذباللہ)۔پشاور کے واقعے میں انہوں نے اسی طرح کیا۔دہشت گردوں کے مطابق ”کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو بالغ مرد اور عورت ہوں ان کو قتل کر دیا جائے۔    “ استغفراللہ کس قدر جھوٹا الزام لگایا۔بغیر کسی وجہ کے سرور ِکونین ایسا حکم کس طرح کر سکتے ہیں۔وہ جو کہ خود رحمت اللعالمین ہیں۔ہر گز ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا۔ ”تم میں سے...
سانئحہ پشاور کے نام قلم بھی خون کے آنسو رو پڑا پھولوں کو شہید لکھتے لکھتے آنکھوں سے آنسو بھی سوکھ گئے پھولوں کو شہید لکھتے لکھتے ہر آنکھ اشک بار ہے،ہر دل رنجیدہ ہے۔اور ہو گا بھی کیوں نہیں،آخر اس قدر اندوہناک حادثہ اس کرہٗ ارض نے دیکھا۔جو پتھرسے پتھر دل شخص کو رلانے پر مجبور کر دے۔صرف ان کو نہیں ہو گا جنہوں نے یہ ظالمانہ کام کیا ہے۔ان کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔ایسے درندہ صفت لوگوں سے تو درندے بھی شرما گئے ہوں گے۔اور ایسا بھیانک کام کر کے خود کو مسلمان بھی سمجھتے ہیں۔ایسے لوگوں کو زمین کھود کر اس میں خود گڑھ جانا چاہیئے۔ ظالموں کو ذرا بھی خیال نہ آیا پھولوں کو شہید کرتے کرتے یقیناًاس وقت جب ظالموں نے اپنا منصوبہ بنایا ہو گا تو زمین نے اپنے کاخالق سے فریاد کی ہوگی کہ اے رب کریم !مجھے اجازت دے تو میں پھٹ جاؤں اور ان انسان نما درندوں کو نگل جاؤں،یقیناًآسمان نے بھی اجازت طلب کی ہو گی کہ اے رحمان !مجھے حکم دے تو میں ان ظالموں پر ٹوٹ کے برسوں....لیکن وہ خدا جو ہر لمحے کی خبر رکھتا ہے،اس نے اجازت نہیں دی ہو گی۔۔کیونکہ کہ وہ جانتاتھا کہ اس قربانی کے بعد کیا ہو گا؟ ان معصوم شہیدوں کی قر...
                                                                                          لوڈ شیڈنگ ’’لوڈ شیڈنگ ‘‘کہنے کو تو دو حرف ہیں اور سہنے کو پوری عمر۔ان کو خوش قسمت کہیئے یا کچھ اور ،جو داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں ۔اور وہ جو ابھی سطح زمین سے اوپر جلوہ افروز ہیں ،انہیں ان کے نا کردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے۔یا مل چکی ہے۔ہر کوئی ایک ہی رونا رو رہا ہے،لیکن ہر ایک نہیں،کہ بجلی بند،پانی بند،گیس بند اور اوپر سے بارش بھی بند۔وافر مقدار میں جو دستیاب ہے اس وقت وہ ہے’’ پسینہ ،ابلتا پانی،ٹھنڈے چولہے اور آفتاب کی غم و غصے میں بھری سنہری کرنیں ‘‘،صرف یہی نہیں بلکہ مہنگائی کے جن نے بھی ان سے پیچھے رہنا گوارا نہیں کیا۔اور لوگوں پر اپنا جادو چلا رہا ہے۔لیکن ہمارا موضوع ’’لوڈ ‘‘ کاہے۔کسی حد تک مہنگائی کا تعلق ’’لوڈ‘‘ سے بن ہی جاتا ہے۔لیکن اگر ساتھ میں ’’شیڈنگ‘‘ مل جائے تو پ...
تقسیمِ عجب دل میں کثرتِ فکر ہو جس کی ہو وہ دولت دنیا کی یا دولت ایمان کی کانٹوں کی سیج لگے گا بسترِاستراحت عجب تقسیم ہے، عجب فیصلہ
          تقسیمِ عجب دل میں کثرتِ   فکر ہو    جس کی ہو وہ دولت دنیا کی یا دولت ایمان کی کانٹوں کی سیج لگے گا بسترِاستراحت عجب  تقسیم  ہے،     عجب فیصلہ
                ( نعت) ان کی آمد سے معطر ہو گئے دو جہاں جن کی خوشبو میں کھو گئے د و جہاں جن و انس میں بے مثل ہیں وہ مہرباں جن کی تعریف میں ہے ہی سارا قرآں اخلاق میں ا ن کی ایسی نفاست ہر یک بات میں ہے ان کی صداقت جن پر درود پڑھتا ہے خو د رحماں جن کی ہر ادا پہ ہے میرا سب قر باں محمدﷺ عربی کہ سراپاء ر حمت مکمل ہوئی ان سے دین کی نعمت نہ زور نہ زبردستی نہ دی کسی کو زحمت اخلاق سے اتاری دل میں یہ نعمت
                  حمد اے خدا میں اس قابل کہاں؟ تیری تعریف کروں بیاں تیری ذات ہے لا مکاں اور میں اک عام سا انساں بنائے ہیں تو نے ہی سارے جہاں یہ ہے میرا پختہ یقین و ایماں تو ہی بہت بڑا رحماں کئے ہیں سب پہ ان گنت احساں  اپنی رحمت کا کر دے مجھ پہ سائباں بے شک تو ہے بڑا مہرباں مجھے عطا کر ایسی زباں جو ہر دم رہے تری ہی ثنا خواں تیرا ذکر کروں میں ہر آں بحر ہو یا کوہِ بیا باں تیری ذات کا جلوہ ہے ہر کہیں سایہء فگن ہر شے ہے تیری توصیف میں مگن اپنا محبت عطا کر دے مجھ گناہ گا ر کو بس ا ک یہی دعا ہے ،بخش دے مجھ خطا کار کو
پیغامِ اسلام پسند ہے خدا کو صرف دینِ اسلام پھیلانا ہے ہر سواس کا پیغام ادا کرو نماز ، روزہ اور زکوۃٰ نیکیوں کی کر دو دعوتِ عام برائی سے بچو اور بچاؤ کہ یہی ہے اصل کام چلنا ہے صرف شریعتِ اسلام پر خواہشِ نفس کو دو لگام رمضان میں رکھو روزے پورے ذکر و تلاوت کرو صبح و شام جہاد فرض ہے مسلمان پر اپنے ہی فائدے کا ہے یہ کام  زندہ رہو گے مرکر ،اگر نوش کیا شہادت کا جا م بیت اللہ کی کی جس نے زیارت گناہوں کی معافی کی سنا دو اسے بشارت