Skip to main content
ہاسٹل میں گزرے یادگار دن ( بقیہ)
ہاسٹل ڈھونڈتے ہوئے پہلے یہی پوچھتے "نیٹ ہے؟ "
چلتا بھی ہے یا نہیں۔۔! "
"ابے پڑھنے آئے ہو یا نیٹ چلانے۔۔ ہاسٹل ہے کوئی نیٹ کیفے نہیں۔۔۔" دل میں ہاسٹل وارڈن کہتے ہونگے۔۔۔!
"ارے ہم پیسے دیئے ہیں۔۔کوئی مفت میں نہیں رہنے آئے۔۔" ہم بھی دل میں ترکی بہ ترکی جواب دیتے۔۔۔!
خیر زبان حال سے وارڈن بڑی تعریف کرتے۔۔اپنے دہی کو کھٹا کون کہتا ہے بھلا؟۔۔۔بتاتے بڑا تیز ہے یہاں کا وائی فائی،تمہاری زبان سے بھی۔۔۔ہم بھی مان لیتے۔۔رہتے،چلاتے۔۔نیٹ کچھوے کی رفتار سے چلتا ہے اور ادھر ہمارا ارادہ وہاں سے چلنے کا بنتا۔۔۔خیر ہمارے ارادے بھانپتے ہوئے اگلے دن نیٹ کی رفتار میں کافی فرق آجاتا۔۔ پھر ارادہ ترک کردیتے۔۔۔!
بھلے گھر میں دس ایم بھی چلانے کی اجازت نہ ملتی ہو یہاں تو اندھیر نگری مچاتے۔۔۔اور اسی کا مطالبہ کرتے۔۔۔
یو پی ایس ہے؟ جنریٹر ہے؟ بجلی تو نہیں جاتی ناں؟!!
"پاکستان میں ہی رہ رہے ہو بھایا!!!کوئی انگلستان نہیں!"
"مفت میں کون رہ رہا ہے بھلا!!"
ہمارا پھر وہی جواب۔۔لاجواب۔۔
سب کچھ ہے۔بجلی نہیں جاتی۔
جائے تو پنکھا ہم جھلیں گے۔۔پریشانی کاہے کو۔۔۔!! رہو تو سہی،بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔۔۔
"اچھا یہ بتائیے گیزر تو چلتا ہے ناں سردیوں میں؟؟"
ہاں،سردیوں میں ہی چلاتے ہیں۔۔گرمیوں میں گرمی ہوتی ہے، نہیں تو آپ جیسے مہاراجا کے لیے گرمی میں بھی چلا سکتے ہیں۔۔ارے مہاراج انسان نہیں ہوتے کیا۔۔
"گھر میں تازہ پانی مشکل سے ملتا ہے نہانے کے لیے اور یہاں مطالبے گیزر کے۔۔"
" ارےپیسے جو دیئے ہیں ہم۔۔۔!!!"
"دو ہزار کیا دیئے پورا جہان خریدلیا ہو جیسے۔۔۔واپس لو اپنے پھوٹیاں کوڑیاں اور پھوٹو یہاں سے۔۔"
اس فقرے کا ڈر تھا،ہم چپ رہتے۔۔۔
عزت پیاری ہے۔
اور وہ چپ اس لیے کہ کیا معلوم ہمارا دماغ پھرکی لے اور ہم کسی اور کونے کھدرے میں چلے جائیں۔۔بھلا کون مارتا ہے لات اپنے پیٹ پر۔۔۔
گھر میں اپنی علیحدہ چارپائی رکھی ہے۔جس پر ہمارا نام درج ہے۔کوئی بیٹھے تو بھونچال آجاتا،اور اس پر سو جائے تو قیامت صغری برپا کردی جاتی۔۔۔!
تکیہ علیحدہ!!
اس کے سوا نیند نہیں آتی۔۔! کوئی غلطی سے سر کے نیچے رکھ لے تو پھر ایسی غلطی نہیں دہراتا۔۔۔بھلے ہی وہ گہری نیند میں ہو۔۔۔تکیہ ہمارا ہے۔۔کھینچ لیا۔۔ پر ایک بات ہم میں اچھی ہے دوسرا تکیہ ہم ساتھ میں دےدیتے،کہ یہ لے لو!!ہمارا ہمیں واپس کرو۔۔۔! اور آئندہ غلطی کی تو خود ہی بھگتنا ہو گا،ادارہ ہٰذا ذمہ دار نہیں ہوگا۔۔۔!
ادھر ہاسٹل میں چارپائی ناپید۔۔۔!
اپنا بستر لاؤ۔۔۔اور نیچے فرش پر بچھا دو۔۔
"ہاں کارپٹ ہمارا، بستر تمہارا۔۔ تم ہمارے کارپٹ کو کچھ نہ ہو تمہارے بستر کو ہم نہ چھیڑیں گے۔۔۔! "
خیر یہ ابتدائی دنوں کی بات تھی۔بعد میں ہم "بدھی مان" ہوگئے یا سیدھے ہوگئے،اس کا نہیں معلوم!! پھر ہم تکیہ ساتھ لائے نہ باقی بستر۔۔۔!
ہاسٹل کے کمرے میں کارپٹ کے ٹکڑے پڑے تھے۔۔بیگ تھا پاس ۔۔۔ان ٹکڑوں کو اور بیگ کو ملا کر تکیہ بنایا چادر بچھائی فرش پر اور سو گئے۔۔۔!
روشنی؟ گاڑی کا ہارن؟؟ اب کچھ پروا نہیں۔۔سو گئے گہری نیند۔۔بن گئے لاش۔۔۔!!دس بجے اٹھے۔۔۔!!
ٹوتھ برش اٹھایا۔۔پیسٹ کسی اور سے لیا۔۔
ارے شیمپو پڑا ہے کسی کا؟ صابن بھی دے دو یار۔۔۔
یار تولیہ نہیں لا پائے اس بار،اپنا دو۔۔۔
"لے لو۔۔پر سر اور چہرے پر ہی استعمال کرنا،ممنوع علاقہ جات تک نہ پہنچنے پائے،اوور۔۔۔*
یار پالش ہوگی؟ نیل کٹر دینا زرا۔۔۔زرا چپل پہن کے جارہے تمہارے۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔،اپنی وہ والی شرٹ تو دینا۔۔۔کل تم بھی تو پہن کے گئے تھے میری۔۔۔
"ہاں ہاں سب لے لو"۔۔
مختصر یہ کہ ٹوتھ برش اور زیر جامہ اپنا باقی سب روم میٹس کا۔۔۔!! دوسروں کے خرچے پر تیار ہوئے۔ہوٹل پر پہنچے۔کھانے کا مینو چائے پراٹھے،نان چنے،حلوہ پوری،انڈہ فرائی،آملیٹ سے ہوتا ہوا آخر پر محض ایک پیکٹ بسکٹ پر رہ گیا۔۔قدیم چیزوں میں سے ایک چائے تواتر سے چلی آتی رہی۔۔کھائے اور چل دیئے جامعہ۔
ڈگری مکمل ہوئی،ہم بھی بدل گئے،عقل ٹخنوں سے ہوتی ہوئی گھٹنوں تک اور وہاں سے اپنی راہ تلاش کرتی ہوئی کھوپڑی میں پہنچنا چاہتی ہے۔<script data-ad-client="ca-pub-9122472099734135" async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script>


اب دال گوشت سے آگے جاب کے دھکے کھارہے ہیں۔۔۔گھر آرہے ، جارہے۔۔ فیس بک چلا رہے۔۔ نیند پوری کررہے ہیں۔۔زندگی کی گاڑی چل رہی ہے۔۔سوتروں کے انوسار سے معلوم ہورہا ہے آنے والے وقتوں میں بیاہ دئیے جائیں گے۔۔اور شہزادے شہزادی کی کہانیوں کی طرح ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔۔۔
ایسا لکھتے ہوئے نظر آئیں گے۔۔۔!!
تحریر: رفاقت حیات

Comments

Popular posts from this blog

مزاحیہ تقریر

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز  اور ا ن کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز محٹرم سامعین بمعناظرین جناب صدر اینڈ آل بردرزالسلام علیکم! میری آج کی تقریر کا عنوان اس دن کے نام جس دن ،جس دن ،پتہ نہیں کیا ہوا تھا،میری آج کی تقریر اس دن کے نام جس دن،جس دن بہت کچھ ہو اتھا۔جنابِ صدر !میرے اس چھوٹے سے دل میں بڑی سی خواہشیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا انسان بننا چاہتا ہوں۔اتنا بڑا کہ میرا قد عالم چنا سے بھی بڑا دکھنے لگے۔میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے ملک کا نام روشن کر وں لیکن کمبخت واپڈا والے ایسا کرنے نہیں دیتے۔جب بھی پاکستان کا نام لکھ کر ۱۰۰ واٹ کے بلب پر لگاتا ہوں ،واپڈا والے بجلی ہی’’ چھک ‘‘لیتے ہیں ۔جنابِ صدر اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔آ پ خود اندازہ لگائیں کہ اگر آج واپڈا والے میری راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ،میری راہ میں روڑے نہ اٹکاتے،میری راہ میں کانٹے نہ بوتے اور سو واٹ کا بلب نہ بجھاتے تو میں عمران سیریز کاکم از کم ایک ناول ختم کر چکا ہوتا۔لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جنابِ صدر میں چاہتا ہوں کہ میں ایک سائنسدان بنوں اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کروں۔میرا سب ...
ہاسٹل میں گزرے یادگار دن۔ ہاسٹل رہنا تھا،اعلی تعلیم کی ڈگری کے لیے۔ چھے سال وہیں گزارنے تھے،علاوہ گرمیوں کی چھٹیوں کے۔زادہِ راہ ساتھ لیا اور رخت سفر باندھ لیا۔دنیا جہان کی ہر چیز ساتھ رکھ لی جیسے مریخ پر جا رہے۔ کنگھی، تیل،شیشہ،صابن،شیمپو کی بوتل،فیس واش،خوشبو،نیل کٹر،قینچی، "ٹوتھ برش" دانت مانجھنے واسطے،پالش اور برش جوتے چمکانے واسطے۔۔۔ احتیاطاً سوئی دھاگہ بھی ساتھ رکھ لیا،کیا معلوم بٹن ٹوٹے یا دھاگہ ادھڑ جائے،ایک ممکنات یہ بھی کر لی کہ کوئی چمڑی نہ ادھیڑ لے، بوقت ضرورت کام آئے، سو، سلائی کا سامان بھی موجود ہو۔ حالانکہ اچھے وقتوں میں سب کام کیے میں نے! پراٹھے بڑے اچھے بناتا تھا۔اماں اب بھی یاد کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے سکول سے واپس آکر اکیڈمی جاتے ہوئے اپنے لیے خود دودھ پتی بناتا اور ساتھ میں روغنی پراٹھے بنا کر خود کو پیش کرتا۔۔۔اماں کہتی ہیں میری بہو کو بڑی آسانی ہو گی۔۔۔ٹھیک کہتی ہیں۔۔برتن دھو لیتا ہوں۔۔۔استری کر لیتا ہوں۔۔کپڑے دھونے میں ید طولیٰ حاصل ہے۔۔! یہ اپنی مشہوری نہیں کررہا بس زرا شوخی کرنے کو دل کررہا،لیکن مجھے مہنگی پڑنے والی ہے،مستقبل قریب میں۔۔۔!! خیر الف سے لے...

یہ عبرت کی جا ہے

سکول میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا کھیل و کود نے کبھی ا ن بٹنوں سے دیکھا ہے تو نے جو بھگوڑے تھے لڑکے وہ اب ہیں نمونے جگہ بھاگنے کی سکول نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے آئے امتحان میں سوال کیسے کیسے  دماغ جواب دے گئے کیسے کیسے لڑکوں نے نقل لگائی کیسے کیسے خلاصے لے گئے ساتھ کیسے کیسے جگہ نقل لگا نے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تما شہ نہیں ہے امتحانوں نے شر یف چھوڑا نہ ہی آوارا  اِ سی سے مجھ سا پڑَھاکو بھی ہا را ہر اک لے کے کیا کیا حسرت سیدھارا  ہر مضمون میں نمبر لیا صفر یارا جگہ افسوس کرنے کی یہ نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے رزلٹ نے پھر آ کے کیا کیا ستا یا استاد تیرا کر دے گا بالکل صفایا میٹرک میں کسی نے توَ پیپر حل کر ایا ایف ایس سی نے پھر تجھ کو پاگل بنایا جگہ رزلٹ بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ہے عیش و عشرت کا کوئی مکاں بھی جہاں تاک میں کھڑا ہو امتحاں بھی بس اپنے اس خوف سے نکل بھی  یہ طرزِ نقل ا ب اپنا بدل بھی جگہ طریقہ نقل بتانے کی نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے ...