میری فیس بک آئی ڈی کو وجود میں لگ بھگ چار سال ہوگئے ہیں اور میرے چار سو فرینڈز ہیں,
مشکل سے کوئی میسج کر دے تو کردے,نہیں تو یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے ادھار کے پیسے واپس کرنے ہوں اور ٹیکسٹ کرنے سے کنی کتراتے ہیں.
ایک دن مجھے خیال آیا کہ کیوں ناں ایک فیک آئی ڈی بنائی جائے اور لوگوں کی نیچر دیکھی جائے کہ وہ سب کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھتے ہیں یا صرف یہ فضیلت میل آئی ڈیز کو حاصل ہے.
چنانچہ کسی محترمہ کے نام سے ایک عددفیک آئی ڈی کو عدم سے لاکر فیس بک پر لے آیا,
پہلے دن سے ہی چالیس پچاس ریکویسٹ آ گئی,اور پھر ہر روز تھوک کے حساب سے آنے لگیں.
آئی ڈی آن کرتے ہی پہلے ٹھرکیوں کا فرینڈ ریکویسٹ پر ہجوم دیکھتا اور انہیں اپنی دوستی کا شرف عطا کیا جاتا.
ریکویسٹ ایکسپٹ کرتے ہی شکریہ کے میسج یوں آنے لگتے جیسے ٹائٹینک میں انہیں میں نے ڈوبنے سے بچایا تھا,
اس کے بعد دس بارہ گروپس میں کوئی نا کوئی ٹھونس دیتا.اور میں گروپ لیو کرتے کرتے ادھ موا ہوجاتا.
اور میسنجر پر تو ہر وقت ہی ایس ایم ایس کا تانتا لگا رہتا,کوئی نام پوچھتا,کہاں سے ہو آپ؟,کیا کرتی ہو,اپنا نمبر تو دو,,,وغیرہ وغیرہ,,
اور مجھے خود محسوس ہونے لگا کہ روز جھوٹ بول بول کر اپنا ستیاناس کروانا ہے اس لیے آئندہ آئی ڈی نہیں لاگ ان کروں گا.
لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں تھا,بعض دفعہ کوئی چیز پوچھنی پڑ جاتی,میل آئی ڈی پر تو کوئی گھاس تک نہیں ڈالتا,اس لیے فیک کا سہارا لینا پڑتا,
اور وہاں صرف پوسٹ کرنے کی دیر ہوتی,حکیم ڈاکٹر فلسفی اور دانش ور یوں حاضر ہوجاتے جیسے میں نے الہ دین کا چراغ رگڑ دیا ہو اور یہ سب ابل ابل کر نازل ہو رہے ہوں,
اتنا ہجوم برسات میں مینڈکوں کا نہیں ہوتا جتنا اس پوسٹ پر کمنٹس کا ہوتاتھا,
پتہ نہیں فی میل آئی ڈیز میں ایسا کونسا مقناطیس آجاتا ہے کہ فرینڈ ریکوایسٹس,ایس ایم ایس,لائک کمنٹس اور شیئر کھنچے چلے آتے ہیں.
مجھے امید تھی کہ اگر میں اس آئی ڈی کو ختم نہ کرتا تو مارک زکر برگ کے بعد دوسرے نمبر پر میرے ہی فالوورز زیادہ ہوتے.
ویلے تجزیہ کاروں کے مطابق
اتنی زیادہ فیک آئی ڈیز ہیں کہ پاکستان میں فیس بک کا نام فیک بک ہونا چاہئیے,
اور مردم شماری کرنے کی بجائے ڈائریکٹ فیس بک سے آئی ڈیز گن لیں اورجو ٹوٹل آئے اسے دو سے تقسیم کردیں
(سفید کرتوت سے اقتباس)
مشکل سے کوئی میسج کر دے تو کردے,نہیں تو یوں لگتا ہے جیسے انہوں نے ادھار کے پیسے واپس کرنے ہوں اور ٹیکسٹ کرنے سے کنی کتراتے ہیں.
ایک دن مجھے خیال آیا کہ کیوں ناں ایک فیک آئی ڈی بنائی جائے اور لوگوں کی نیچر دیکھی جائے کہ وہ سب کے ساتھ ایسا ہی سلوک روا رکھتے ہیں یا صرف یہ فضیلت میل آئی ڈیز کو حاصل ہے.
چنانچہ کسی محترمہ کے نام سے ایک عددفیک آئی ڈی کو عدم سے لاکر فیس بک پر لے آیا,
پہلے دن سے ہی چالیس پچاس ریکویسٹ آ گئی,اور پھر ہر روز تھوک کے حساب سے آنے لگیں.
آئی ڈی آن کرتے ہی پہلے ٹھرکیوں کا فرینڈ ریکویسٹ پر ہجوم دیکھتا اور انہیں اپنی دوستی کا شرف عطا کیا جاتا.
ریکویسٹ ایکسپٹ کرتے ہی شکریہ کے میسج یوں آنے لگتے جیسے ٹائٹینک میں انہیں میں نے ڈوبنے سے بچایا تھا,
اس کے بعد دس بارہ گروپس میں کوئی نا کوئی ٹھونس دیتا.اور میں گروپ لیو کرتے کرتے ادھ موا ہوجاتا.
اور میسنجر پر تو ہر وقت ہی ایس ایم ایس کا تانتا لگا رہتا,کوئی نام پوچھتا,کہاں سے ہو آپ؟,کیا کرتی ہو,اپنا نمبر تو دو,,,وغیرہ وغیرہ,,
اور مجھے خود محسوس ہونے لگا کہ روز جھوٹ بول بول کر اپنا ستیاناس کروانا ہے اس لیے آئندہ آئی ڈی نہیں لاگ ان کروں گا.
لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں تھا,بعض دفعہ کوئی چیز پوچھنی پڑ جاتی,میل آئی ڈی پر تو کوئی گھاس تک نہیں ڈالتا,اس لیے فیک کا سہارا لینا پڑتا,
اور وہاں صرف پوسٹ کرنے کی دیر ہوتی,حکیم ڈاکٹر فلسفی اور دانش ور یوں حاضر ہوجاتے جیسے میں نے الہ دین کا چراغ رگڑ دیا ہو اور یہ سب ابل ابل کر نازل ہو رہے ہوں,
اتنا ہجوم برسات میں مینڈکوں کا نہیں ہوتا جتنا اس پوسٹ پر کمنٹس کا ہوتاتھا,
پتہ نہیں فی میل آئی ڈیز میں ایسا کونسا مقناطیس آجاتا ہے کہ فرینڈ ریکوایسٹس,ایس ایم ایس,لائک کمنٹس اور شیئر کھنچے چلے آتے ہیں.
مجھے امید تھی کہ اگر میں اس آئی ڈی کو ختم نہ کرتا تو مارک زکر برگ کے بعد دوسرے نمبر پر میرے ہی فالوورز زیادہ ہوتے.
ویلے تجزیہ کاروں کے مطابق
اتنی زیادہ فیک آئی ڈیز ہیں کہ پاکستان میں فیس بک کا نام فیک بک ہونا چاہئیے,
اور مردم شماری کرنے کی بجائے ڈائریکٹ فیس بک سے آئی ڈیز گن لیں اورجو ٹوٹل آئے اسے دو سے تقسیم کردیں
(سفید کرتوت سے اقتباس)
Comments
Post a Comment