Skip to main content

کرونا اور سکول

 


کہنے لگے "ما بدولت کے پورے گیارہ سو نمبر آئے ہیں۔"

جواب ملا اتنے کم.....!!!؟
"ہمارے پوت نے تو گیارہ سو میں سے گیارہ سو تین حاصل کیے ہیں۔"
نیوٹن سمیت سب سائنس دانوں کی روحیں بین کررہی ہیں کہ اب ہماری چھٹی ہونے والی ہے۔ہم سے بڑی بڑی ذہین آتماؤں نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔سائنس ان کے گھر کی باندی اور اس کے اصول ان کے پاؤں کی نوک پر ....!
ادھر انہیں کرونا چمٹا ،ادھر انہوں نے نمبر لپیٹے...!!
ٹوئیٹر پروہ شور وہ دہائی کہ ہائے لٹ گئے.....!
سکول کھولو،آن لائن سمجھ نہیں آتی،ہمیں "بالمشافہ" علم دو...!
لیکن سکول بند،احتجاج کے جواب ندارد۔ ٹرینڈ چلایا کہ پیپر نہیں دیں گے،پڑھایا ہی کیا ہے؟ نمبر کم آئیں گے ،ہم تو مر جائیں گے...!
وقت گزرا،سکول کھلے،امتحان ہوئے،نتائج آئے۔ جنہوں نے شور مچا رکھا تھا کہ ہائے مستقبل تباہ ہوگیا،انہی کے سو فیصد نمبر آئے۔جب سمجھ ہی نہیں آئی،پڑھا ہی نہیں،اتنے نمبر کیا من و سلوی تھا جو آسمان سے نازل ہوگئے؟۔
سننے والے حیران،زبانیں گنگ،آنکھیں حیرت زدہ....!
تاریخ نے دیکھا کہ پاکستانی قوم نے کرونا سے بھی لڑ کر علم کی شمع روشن کی،جس کے شعلے آسمان کو چھونے لگے۔
اور نام دنیا کی پانچ سو قابل یونیورسٹیوں میں بھی نہیں....! وائے حیرت ....!!
بخدا دنیا نے آج تک ایسی" ذہین تر" مخلوق کبھی نہیں دیکھی۔وہی دو کان،دو آنکھیں، ایک دماغ،دو ہاتھ......لیکن سنا ہےایسی مخلوق کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے زمانے کے "یاجوج ماجوج" ہیں،جیسے وہ آکر ہر چیز کو چٹ کر جائیں گے،یہ بھی پیدا ہوکر باقیوں کے نمبروں کو چاٹ گئے ہیں۔
دنیا میں جتنی بھی مشینیں ہیں ان کی کارگردگی کبھی بھی سو فیصد نہیں ہوسکتی۔جہاں سو فیصد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اس کے ساتھ یہ لکھا جاتا ہے کہ یہ ایک "آئیڈیل کیس" ہے یعنی بے مثال،خیالی۔
لیکن یہ سو فیصد والی پاکستانی مخلوق نے جنم لے کر اس قانون کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ہم جب سے پیدا ہوئے ،پڑھنے بیٹھے،اور ابھی تک پڑھ رہے ہیں ،لیکن یہ سو فیصد نمبر کا کبھی رات کو خواب تک نہیں آیا۔جب کہ آج کل تو دھڑا دھڑ نمبر آرہے ہیں۔
میری ایک سٹوڈنٹ کے بقول: "نمبر ایسے آرہے ہیں جیسے آج کل بجلی کے بل"۔
تحریر: رفاقت حیات۔

Comments

Popular posts from this blog

                ( نعت) ان کی آمد سے معطر ہو گئے دو جہاں جن کی خوشبو میں کھو گئے د و جہاں جن و انس میں بے مثل ہیں وہ مہرباں جن کی تعریف میں ہے ہی سارا قرآں اخلاق میں ا ن کی ایسی نفاست ہر یک بات میں ہے ان کی صداقت جن پر درود پڑھتا ہے خو د رحماں جن کی ہر ادا پہ ہے میرا سب قر باں محمدﷺ عربی کہ سراپاء ر حمت مکمل ہوئی ان سے دین کی نعمت نہ زور نہ زبردستی نہ دی کسی کو زحمت اخلاق سے اتاری دل میں یہ نعمت
ہاسٹل میں گزرے یادگار دن ( بقیہ) ہاسٹل ڈھونڈتے ہوئے پہلے یہی پوچھتے "نیٹ ہے؟ " چلتا بھی ہے یا نہیں۔۔! " "ابے پڑھنے آئے ہو یا نیٹ چلانے۔۔ ہاسٹل ہے کوئی نیٹ کیفے نہیں۔۔۔" دل میں ہاسٹل وارڈن کہتے ہونگے۔۔۔! "ارے ہم پیسے دیئے ہیں۔۔کوئی مفت میں نہیں رہنے آئے۔۔" ہم بھی دل میں ترکی بہ ترکی جواب دیتے۔۔۔! خیر زبان حال سے وارڈن بڑی تعریف کرتے۔۔اپنے دہی کو کھٹا کون کہتا ہے بھلا؟۔۔۔بتاتے بڑا تیز ہے یہاں کا وائی فائی،تمہاری زبان سے بھی۔۔۔ہم بھی مان لیتے۔۔رہتے،چلاتے۔۔نیٹ کچھوے کی رفتار سے چلتا ہے اور ادھر ہمارا ارادہ وہاں سے چلنے کا بنتا۔۔۔خیر ہمارے ارادے بھانپتے ہوئے اگلے دن نیٹ کی رفتار میں کافی فرق آجاتا۔۔ پھر ارادہ ترک کردیتے۔۔۔! بھلے گھر میں دس ایم بھی چلانے کی اجازت نہ ملتی ہو یہاں تو اندھیر نگری مچاتے۔۔۔اور اسی کا مطالبہ کرتے۔۔۔ یو پی ایس ہے؟ جنریٹر ہے؟ بجلی تو نہیں جاتی ناں؟!! "پاکستان میں ہی رہ رہے ہو بھایا!!!کوئی انگلستان نہیں!" "مفت میں کون رہ رہا ہے بھلا!!" ہمارا پھر وہی جواب۔۔لاجواب۔۔ سب کچھ ہے۔بجلی نہیں جاتی۔ جائے تو پنکھا ہم جھلی