Skip to main content

Posts

Showing posts from 2017

صغیرہ شیطان المعروف پتنگے

     صغیرہ شیطان   المعروف پتنگے     برسات میں   پتنگوں کی تو موجیں   لگ جاتی ہیں۔جونہی مغرب کا وقت ہوتا ہے ان کی آمد کا نہ ختم   ہونے   والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔راستے میں چلتے ہوئے کبھی چہرے کے ساتھ ٹکراتے ہیں تو کبھی بالوں میں گھس کر اودھم مچادیتے ہیں۔پتنگوں کی اس قدر بہتات ہوتی ہے کہ بندہ کسی سے بات بھی نہیں کرسکتا ۔اگر اِدھر بات کے لیے منہ کھولا تو اُدھر ایک پتنگا سیدھا   منہ کےاندر،اور پھر تُھو تُھو کرنے والا ایک لا متناہی سلسلہ شروع۔اِدھر تھوکنے کے لیے منہ نیچے کیا تو   اُدھر بالوں میں دوسرا پتنگا اَڑ گیا۔اس سے جان چھڑائی تو   کسی تیسرے شیطان نے آستین سے انٹری ماری اور    قمیض کے اندر مدغم۔سر سے پتنگا نکالا تو وہ سیدھا کانوں میں گھو ں گھوں کرکے اپنا پر تڑوا کے پاؤں پر لوٹنے لگ جاتا ہے۔انسانوں کی بینڈ بجانے میں کوئی کسر   اٹھا نہیں رکھتے۔   بہرحال   حفظِ ما تقدم کے تحت اول تو گھر سے نہ نکلیں   اگر نکلیں تو کسی خاتونِ خانہ کا عبایہ یا برقعہ پہن لیجیے   کہ اسی میں بہتری ہے۔   ساون میں پتنگوں   کی فوج ظفر موج روشنی کے آگے سجدہ ریز ہوتی نظر آتی ہیں۔بڑی چیونٹیوں   کے ج

عقل

ڈائنوسارز ناپید ہوچکے ہیں لیکن جیلی فش ابھی بھی کروڑوں سالوں سے زندہ ہے. کیونکہ اس کا دماغ نہیں ہے. اس لیے ایسے لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں جن کے پاس دماغ نہیں ہے.وہ بھی لمبے عرصے تک اس دنیا میں رہ سکتے ہیں.اسی لیے تو کہتے ہیں عقل نہی تاں موجاں ای موجاں عقل اے تاں سوچاں ای سوچاں بعض لوگوں کے پاس عقل تو ہوتی ہے لیکن وہ اسے انتہائی سنبھال کر رکھتے ہیں,شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چیزیں استعمال کرنے سے گھس جاتی ہیں,اور گھسی پٹی چیزیں وزیروں کی طرح بےکار ہوتی ہیں. جس بندے نے یہ محاورہ ایجاد کیا تھا کہ عقل بڑی کہ بھینس,شاید اس نے کبھی ہاتھی نہیں دیکھا تھا. لوگ کہتے ہیں کہ جن کے پاس عقل ہو وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور بڑاعہدہ پاتے ہیں.لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدر دیکھ کر خدا کی قدرت پر یقین آجاتا ہے.ویسے مجھے امید ہے جیلی فش اور ڈونلڈ ٹرمپ کا شجرۂ نسب کہیں نہ کہیں ضرور ملتا ہوگا.کیونکہ دونوں کے پاس وہ نہیں ہے جو کھوپڑی کے اندر ہوتا ہے. جب عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے تو گھاس چرنے چلی جاتی ہے اور چلتے چلتے ٹخنوں تک پہنچ جاتی ہے,اور جب اپنے پاؤں پر کلہاڑی پڑتی ہے توپھر عق

تصویر فوبیا

                                                                 تصویر فوبیا تصاویر کھینچنا اب ہر ایک کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے.جس کو دیکھو منہ ٹیڑھا کر کے کیمرے کے آگے کھڑا ہوکر یوں دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے بھینس گھاس کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی ہوتی ہے.اس قدر انہماک سے تصویر اترواتے ہیں جیسے اگلی دفعہ امریکہ کا صدر منتخب ہونا ہو او اگر زرا ساتصویر کا زاویہ ادھر ادھر ہواتو قیامتِ صغری برپا ہوجائے گی. کثیر تعداد میں لوگ فیس بک کے لیے تصاویر بناتے ہیں.اور کچھ تو اس قدر پابند ہوتے ہیں کہ جو کام بھی کیا اس کی تصویر لے کر فیس بک پے فرض ِعین سمجھ کر ڈال دی.جیسے کھانا کھا رہے تو پکچر بنائی اور فیسبک پر ٹھونس دی.کہیں جارہےہوں تو اس کی تصویر لی اور دس بارہ بندوں کو ٹیگ کرکے کہا انجوائے ود فلاں. منہ پر مکھیاں بیٹھی ہوں تو انہیں اڑاتے ہوئے ایک تصویر لے لی.سونے لگے ہوں تو بستر سمیت اپنی لٹکی ہوئی بوتھی کی نمائش کرواتے ہوئے پکچر بنا لی.اور سوشل میڈیا پر جو ان کے فرینڈز ہیں ان کو عذابِ تصویر ناک میں مبتلا کردیتے ہیں.جو بیچارے نہ چاہتے ہوئے بھی لائک کر کے اپنے قومی کمنٹ