Skip to main content

Posts

Showing posts from April, 2015
       آرٹی فیشل وہ مسخر ہ تھا اسے عادت تھی ہنسنے کی یہ دل کچھ او ر سمجھا اسے آنکھوں کی بیماری تھی یہ دل  کچھ اور سمجھا وہ بات   بات    پہ  بہت  مسکرا تا  تھا اسے لطیفے بہت  یا د  تھے  یہ دل کچھ اور سمجھا اس  کی  باتوں   سے  خوشبو   آتی  تھی وہ  ’ ’ ٹافیاں “  کھاتا تھا  یہ دل کچھ اور سمجھا اس کی  زلفیں  سیا ہ  تھیں  شب  کی  طرح و ہ  ”سن سلک “ استعمال کرتا تھا یہ دل کچھ اور سمجھا اس کی  رنگت  تھی   سرخ  گلاب کی طرح وہ ” فیس فریش“ استعمال کرتا  تھا  یہ دل کچھ او ر سمجھا اس کے  دانت  چمک دا ر تھے مو تیوں  کی  طرح وہ  ” کولیگیٹ “ استعمال کرتا تھا یہ د ل کچھ اور سمجھا اس  کے بدن سے خوشبو آتی تھی پھولوں کی طرح وہ  ”میڈورا‘ ‘ استعمال کرتا تھا یہ دل کچھ او ر سمجھا اس کے ناخن بہت ہی لمبے تھے اس کے ہاتھوں کی طرح اس کے...

کرکٹ اور ہم

کرکٹ اور ہم ہماری پاکستانی قوم اپنا وقت جس بے دردی سے ضائع کر رہی ہے کہ اس سے دیکھ کہ یوں لگتا ہے کہ ہم نے اسی طرح پسماندہ قوم کا طوق اپنے گلے میں سجائے رکھنا ہے۔ہمیں وقت کی دوڑ میں حصہ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔دنیا چاند سے آگے مریخ تک پہنچ چکی ہے اور ہم ابھی تک’’ کنوئیں کا مینڈک‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ہماری ترقی اور امید صرف اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستانی ٹیم کرکٹ میچ جیت جائے۔اگر یہ جیت جائے تو ہم اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھے لگتے ہیں اور اگر ہار جائے تو ہم ایک دوسرے کو سمجھانے لگتے ہیں کہ فلاں کھلاڑی نے یہ کیا تو میچ ہار گئے اگر وہ ایسا کرتا تو میچ جیت جاتے۔جس کو دیکھو وہی میچ پر تبصرہ کر رہا ہے ،ہر ایک اپنا اپنا تجزیہ پیش کر رہا ہے۔ان تجزیوں تبصروں اور مشوروں سے بہتر ہے کہ یہ لوگ خود ٹیم میں شامل ہوجائیں تا کہ کچھ فائدہ ہی ہو جائے۔اب یہاں ہزاروں میل دور بیٹھ کر آپ کے تبصرے کا اس ٹیم کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ہاں البتہ یہ نقصان ضرور ہو رہا ہے کہ ہم اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔اور کچھ نہیں۔ جب کسی سے کہاجائے کہ بھائی صاحب میچ دیکھنے کا کیا فائدہ ،جب آخر میں پتہ چل ہی جائے گا کہ کون جیتا کو ن ہا...

مزاحیہ تقریر

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز  اور ا ن کی جوتیاں لے کے بھاگ گیا فراز محٹرم سامعین بمعناظرین جناب صدر اینڈ آل بردرزالسلام علیکم! میری آج کی تقریر کا عنوان اس دن کے نام جس دن ،جس دن ،پتہ نہیں کیا ہوا تھا،میری آج کی تقریر اس دن کے نام جس دن،جس دن بہت کچھ ہو اتھا۔جنابِ صدر !میرے اس چھوٹے سے دل میں بڑی سی خواہشیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔میں پڑھ لکھ کر ایک بڑا انسان بننا چاہتا ہوں۔اتنا بڑا کہ میرا قد عالم چنا سے بھی بڑا دکھنے لگے۔میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے ملک کا نام روشن کر وں لیکن کمبخت واپڈا والے ایسا کرنے نہیں دیتے۔جب بھی پاکستان کا نام لکھ کر ۱۰۰ واٹ کے بلب پر لگاتا ہوں ،واپڈا والے بجلی ہی’’ چھک ‘‘لیتے ہیں ۔جنابِ صدر اس میں میری کوئی غلطی نہیں۔آ پ خود اندازہ لگائیں کہ اگر آج واپڈا والے میری راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ،میری راہ میں روڑے نہ اٹکاتے،میری راہ میں کانٹے نہ بوتے اور سو واٹ کا بلب نہ بجھاتے تو میں عمران سیریز کاکم از کم ایک ناول ختم کر چکا ہوتا۔لیکن شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جنابِ صدر میں چاہتا ہوں کہ میں ایک سائنسدان بنوں اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کروں۔میرا سب ...